سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

حرم کے کبوتروں کی کوئی خصوصیت نہیں

  • 9215
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 859

سوال

حرم کے کبوتروں کی کوئی خصوصیت نہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک حاجی کا کہنا ہے کہ جب مدینہ منورہ کے کسی کبوتر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ مکہ مکرمہ آ جاتا ہے اور کعبہ مشرفہ کے اوپر چکر لگاتا ہے گویا طواف وداع کر رہا ہو اور پھر کچھ میلوں کی مسافت تک اڑنے کے بعد مر جاتا ہے، کیا یہ بات صحیح   ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مدینہ اور مکہ کے کبوتروں کی دوسرے مقامات کے کبوتروں کی نسبت کوئی خصوصیت نہیں، سوائے اس کے کہ کسی کے لیے ان کا شکار کرنا یا انہیں بھگانا جائز نہیں، خواہ اس کا حج یا عمرہ کا احرام باندھا ہو یا نہ باندھا ہو اور اگر کوئی حرمین شریفین سے نکل جائے تو پھر اس کے لیے ان کا شکار حلال ہے بشرطیکہ وہ یہ شکار محرم کے لیے نہ کرے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَقتُلُوا الصَّيدَ وَأَنتُم حُرُ‌مٌ...٩٥... سورة المائدة

"اے مومنو! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا۔"

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے:

(ان الله حرم مكة فلم تحل لاحد قبلي‘ ولا تحل بعدي‘ وانما احلت لي ساعة من نهار لا يختلي خلاها‘ ولا يعضد شجرها‘ ولا ينفر صيدها) (صحيح البخاري‘ جزاء الصيد‘ باب لا ينفر صيد الحرم‘ ح: 1833)

"بے شک اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم قرار دیا ہے، مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے حلال نہیں تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ میرے لیے بھی دن کی صرف ایک گھڑی میں اسے حلال قرار دیا گیا تھا، نہ اس کے گھاس کو کاٹا جائے اور نہ اس کے درخت کو چھانٹا یا کاٹا جائے اور نہ اس کے شکار کو بھگایا جائے۔"

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(ان ابراهيم حرم مكة‘ واني حرمت المدينة ما بين لا بيتها‘ لا يقطع عضاهها‘ ولا يصاد صيدها) (صحيح مسلم‘ الحج‘ باب فضل المدينة...الخ‘ ح: 1362)

"بے شک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ کی دونوں سرحدوں کے درمیان کو حرم قرار دیتا ہوں، اس کے کانٹے دار درخت کو نہ کاٹا جائے اور نہ اس کے جانوروں کا شکار کیا جائے۔"

جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ جب مدینہ منورہ کے کسی کبوتر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ اڑ کر مکہ چلا جاتا ہے اور کعبہ کی فضا میں چکر لگاتا ہے تو وہ جاہل ہے۔ اس نے ایک ایسی بات کا دعویٰ کیا ہے جو قطعا صحیح نہیں ہے کیونکہ موت کا علم اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے سوا اور کسی کو نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَما تَدر‌ى نَفسٌ بِأَىِّ أَر‌ضٍ تَموتُ...٣٤﴾... سورة لقمان

"اور کوئی نفس نہیں جانتا ہے کہ کس سر زمین میں اسے موت آئے گی۔"

کعبہ کا طواف وداع تو اس کے لیے ہے جو حج یا عمرہ کرے۔ یہ دعویٰ کرنا کہ کبوتر کو موت کے وقت کا علم ہو جاتا ہے، لہذا وہ کعبہ کے اوپر اڑ کر طواف وداع کرتا ہے یہ ایک بالکل جھوٹا دعویٰ ہے، اس کی جرات کوئی جاہل شخص ہی کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے بارے میں افتراء پرداز ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے