سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

رمضان اور غیر رمضان میں بار بار عمرہ کرنا

  • 9207
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1258

سوال

رمضان اور غیر رمضان میں بار بار عمرہ کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمضان اور غیر رمضان میں حرم سے اس نیت سے نکل کر حل میں جانے کا کیا حکم ہے تاکہ ایک اور عمرہ کر لیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر فرمایا ہے کہ بالاتفاق سلف، عمروں کی کثرت اور تکرار مکروہ ہے۔ اس قول کو خواہ تسلیم کیا جائے یا نہ کیا جائے لیکن یہ بات درست ہے کہ جو شخص اپنے وطن سے مکہ مکرمہ میں عمرہ کے لیے آیا ہے اس کے رمضان اور غیر رمضان میں حرم سے نکل کر حل میں جانا تاکہ وہ دوسرا اور تیسرا عمرہ بھی کر سکے، یہ یقینا ان امور بدعت میں سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں معروف نہ تھے۔ عہد نبوی سے اس کی صرف ایک ہی مثال ملتی ہے اور اس کا تعلق بھی ایک خاص مسئلہ سے ہے اور وہ یہ کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حج تمتع کی نیت سے عمرہ کا احرام باندھا تھا کہ آپ کے ایام شروع ہو گئے،[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آپ رو رہی ہیں، رونے کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا، اس پر آپ نے انہیں تسلی دی اور فرمایا کہ "یہ تو وہ چیزہے جسے اللہ تعالیٰ نے بنات آدم کے لیے لکھ رکھا ہے، پھر آپ نے حکم دیا کہ حج کا احرام باندھ لیں، چاننچہ آپ نے حج کا احرام باندھ لیا اور اس طرح ان کا حج قران ہو گیا اور جب وہ حج سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ حج کے علاوہ ایک مستقل عمرہ بھی کرنا چاہتی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کواس کی اجازت دے دی اور آپ نے ان کے بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان کے ساتھ تنعیم تک جائیں تاکہ وہاں سے احرام باندھ آئیں اور اس طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ عمرہ کیا۔ اگر یہ مطلقا مشروع ہوتا تو آپ اس کی طرف صحابہ کرام کی رہنمائی فرماتے اور بالخصوص عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو تو اس کی ضرور ترغیب دیتے جو اپنی بہن کے ہمراہ تھے کہ وہ بھی ایک اور عمرہ کا اجروثواب حاصل کریں اور پھر ہم سب یہ جانتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں انیس دن قیام فرمایا مگر اس دوران عمرہ نہیں کیا حالانکہ آپ کے لیے اب اس میں کوئی دشواری نہیں تھی، لہذا معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص رمضان یا غیر رمضان میں عمرہ کے لیے آئے تو وہ حرم سے حل تک نہ جائے تاکہ بار بار عمرہ کرے کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا خلفائے راشدین سے یا حضرات صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں ہے۔

بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں رمضان میں عمرہ کے لیے آیا ہوں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک عمرہ اپنی ماں یا باپ یس کسی رشتہ دار وغیرہ کے لیے بھی کر لوں تو ہم عرض کریں گے کہ فوت شدگان کے لیے ایصال ثواب امور مشروع میں سے نہیں ہے۔ یعنی کسی بھی آدمی سے یہ مطالبہ نہیں ہے کہ وہ اپنی ماں یا باپ یا بہن وغیرہ کے لیے نیک عمل کرے، ہاں البتہ  اگر کوئی ایسا کرے تو یہ جائز ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنی ماں کی طرف سے اپنے نخلستان میں صدقہ کریں،[2] اسی طرح ایک آدمی نے آپ کی خدمت میں جب یہ عرض کیا کہ میری امی اچانک فوت ہو گئی ہیں اور میرا گمان ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرتیں۔ کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ تو آپ نے فرمایا ہاں![3] لیکن اس کے باجود آپ نے علی العموم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو یہ حکم نہیں دیا کہ اپنے فوت شدہ ماں، باپ یا دیگر رشتہ داروں کی طرف سے صدقہ کرو۔ ہر طالب علم کے لیے یہ بھی واجب ہے کہ وہ امر مشروع اور امر واجب میں فرق معلوم کرے، یعنی امر مشروع تو وہ ہے جس کے بارے میں ہر مسلمان سے یہ تقاضا ہے کہ وہ اسے ضرور سر انجام دے اور امر جائز وہ ہے جسے شریعت جائز تو ضرور قرار دیتی ہے لیکن ہر مسلمان سے اسے سر انجام دینے کا مطالبہ نہیں کرتی۔ یہاں بطور مثال میں اس صحابہ کے واقعہ کی طرف اشارہ کروں گا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ میں بھیجا تھا اور وہ جب بھی نماز پڑھتے تو اپنی قراءت کو سورہ اخلاص پر ختم کرتے،[4] واپسی پر صحابہ کرام نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس سورت میں چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا تذکرہ ہے، لہذا میں اس سورت سے محبت رکھتا ہوں، یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جاؤ انہیں بتا دو کہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت رکھتا ہے" لیکن اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول نہیں تھا کہ اپنی ہر قراءت کو سورہ اخلاص پر ختم فرمائیں اور نہ آپ نے امت کو اس کی تلقین فرمائی۔

اس سے امر مشروع اور امر جائز میں فرق واضح ہو گیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اگر آپ نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو اجازت دی کہ اپنی ماں کی طرف سے باغ کو صدقہ کریں یا اس سائل کو اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کرنے کی اجازت دی اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر شخص کے لیے یہ حکم شریعت ہے کہ وہ ایسا ضرور کرے، ہاں البتہ کوئی ایسا کرتا ہے تو اس سے اسے ضرور نفع پہنچتا ہے جس کی طرف سے صدقہ کیا جائے، لیکن ہمیں حکم شریعت یہ ےہ کہ اپنے والدین کے لیے دعا کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(اذا مات الاسنان انقطع عنه عمله الا من ثلاثة: الا من صدقة جارية‘ او علم ينفع به‘ او والد صالح يدعو له) (صحيح مسلم‘ الوصية‘ باب ما يحلق الانسان من الثواب بعد وفاته‘ ح: 1631والادب المفرد‘ باب بر الوالدين بعد موتهما‘ ح: 38 واللفظ له)

"جب بندہ فوت ہوتا ہے تو تین طرح کے اعمال کے سوا اس کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں اور وہ تین یہ ہیں: صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے نفع اٹھایا جا رہا ہو اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔"


[1] صحیح بخاری، باب کیف تھل الحائض والنفساء، حدیث: 1556 وصحیح مسلم، الحج ، حدیث: 1211

[2] سنن نسائی، الوصایا، باب اذا مات الفجاۃ ھل یستحب لاھلہ...الخ، حدیث: 3680

[3] صحیح بخاری، الجنائز، باب موت الفجاۃ البغتۃ، حدیث: 1388 و صحیح مسلم، الزکاۃ، حدیث: 1004

[4] صحیح بخاری، التوحید، باب ما جاء فی دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث: 7375 وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل قراءۃ قل ھو اللہ احد، حدیث: 813

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے