عمرہ میں حلق یا تقصیر کے بارے میں کیا حکم ہے؟
عمرہ میں بھی بالوں کو منڈانا یا کٹانا واجب ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ مکرمہ میں تشریف لائے اور آپ نے طواف و سعی کر لیا تو آپ نے حکم دیا کہ "جو شخص اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہیں لایا وہ بالوں کو کٹوا دے یا منڈوا دے"[1] تو جب آپ نے بالوں کے کٹوانے کا حکم دیا اور اصول یہ ہے کہ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ بال کٹوانا واجب ہے اور اس کی ایک یہ دلیل بھی ہے کہ غزوہ حدیبیہ کے موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام کو کفار مکہ نے مکہ میں جانے سے روک دیا تو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ وہ اپنے سروں کو منڈا دیں اور جب انہوں نے اس سلسلہ میں سستی کی تو آپ نے ناراضی کا اظہار فرمایا۔[2] اب ریا یہ مسئلہ کہ عمرہ میں بالوں کو منڈانا افضل ہے یا کٹانا، تو افضل یہ ہے کہ منڈا دیا جائے، ہاں البتہ وہ شخص جس کا حج تمتع کا ارادہ ہو اور وہ دیر سے آیا ہو تو اس کے لیے بالوں کو کٹوانا افضل ہے تاکہ حج میں منڈانے کے لیے بال کافی ہوں۔
[1] صحیح مسلم، الحج، باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث: 1218
[2] صحیح بخاری، المحصر، باب اذا احصر المعتمر، حدیث: 1807 و صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1230