سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(13) کافر کے لیے اسلام قبول کرنا

  • 920
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1299

سوال

(13) کافر کے لیے اسلام قبول کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کافر کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ اسلام قبول کر لے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

ہر کافر کے لیے، خواہ وہ عیسائی ہو یا یہودی، یہ واجب ہے کہ وہ دین اسلام قبول کر لے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں فرمادیا ہے:

﴿قُل يـأَيُّهَا النّاسُ إِنّى رَسولُ اللَّهِ إِلَيكُم جَميعًا الَّذى لَهُ مُلكُ السَّمـوتِ وَالأَرضِ لا إِلـهَ إِلّا هُوَ يُحيۦ وَيُميتُ فَـٔامِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ الَّذى يُؤمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمـتِهِ وَاتَّبِعوهُ لَعَلَّكُم تَهتَدونَ ﴿١٥٨﴾... سورة الأعراف

’’(اے محمد!) کہہ دو، اے لوگو! بے شک میں تم سبکی طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، وہ جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ تو تم اللہ پر اور اس کے رسول، پیغمبر امی پر، جو خود بھی اللہ پر اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو تا کہ تم ہدایت پاجاؤ۔‘‘

لہٰذا تمام لوگوں پر یہ واجب ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں، البتہ دین اسلام نے اللہ تعالیٰ کی رحمت وحکمت کے پیش نظر غیر مسلموں کے لیے اس بات کو بھی جائز قرار دیا ہے کہ وہ اپنے دین پر باقی رہیں بشرطیکہ وہ مسلمانوں کے احکام شریعت کا پاس ولحاظ رکھیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قـتِلُوا الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَلا بِاليَومِ الءاخِرِ وَلا يُحَرِّمونَ ما حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسولُهُ وَلا يَدينونَ دينَ الحَقِّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـبَ حَتّى يُعطُوا الجِزيَةَ عَن يَدٍ وَهُم صـغِرونَ ﴿٢٩﴾... سورة التوبة

’’جو لوگ اہل کتاب میں سے اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں، ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔‘‘

صحیح مسلم میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر یا سریہ کا کسی کو امیر مقرر کرتے تو آپ اسے اللہ تعالیٰ کے تقویٰ اور اپنے ہم سفر مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی وخیر خواہی کا حکم دیتے اور فرماتے تھے:

«اُدْعُهُمْ اِلٰی ثَلَاثِ خِصَالٍ اَوْ خِلَالٍ فَأَيَّتُهُنَّ مَا اَجَابُوکَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَکُفَّ عَنْهُمْ»(صحیح مسلم، الجهاد والسیر، باب تامیرالامراء… ح: ۱۷۳۱)

’’انہیں تین باتوں کی دعوت دو، وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی تسلیم کر لیں تو ان کی طرف سے تم اسے قبول کر لو اور ان سے (جنگ کرنے سے) رک جاؤ۔‘‘

ان تین باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ جزیہ ادا کریں، اس لیے اہل علم کے اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ کے علاوہ دیگر غیر مسلموں سے بھی جزیہ قبول لیا جائے گا۔ حاصل کلام یہ کہ

غیر مسلموں کے لیے واجب ہے کہ وہ یا تو اسلام میں داخل ہو جائیں یا احکام اسلام کے تابع ہو جائیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ48

محدث فتویٰ

تبصرے