جب کوئی انسان حج یا عمرہ کے لیے نکلے اور اسے راستے میں کوئی جماعت یا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والے روک دیں تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟
جس شخص کو کوئی دشمن یا رہزن حج سے روک دے تو یہ رکاوٹ احرام سے پہلے ہو گی یا بعد میں، لہذا اگر کوئی مسلم حج یا عمرہ ادا کرنے کے لیے نکلے اور احرام باندھنے سے پہلے ہی کوئی دشمن اسے مکہ جانے سے روک دے تو وہ اپنے گھر واپس آ جائے، اس پر کوئی فدیہ بھی لازم نہ ہو گا اور نیت کے مطابق اسے ثواب ملے گا اور جب راستے پر امن ہو جائیں تو پھر اسے فریضہ حج جلد ادا کرنا چاہیے اور اگر حج یا عمرہ ادا کرنے کے لیے نکلے، میقات تک پہنچ جائے، احرام باندھ لے اور پھر دشمن اسے آگے نہ جانے دیں اور راستے میں رکاوٹ بن جائیں تو اسے چاہیے کہ ایک بکری ذبح کر دے اور محصر کی طرح حلال ہو جائے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں کیا ہے:
"اور اگر تم (راستے میں) روک دئیے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کر دو)"
اور اگر بکری نہ ملے تو احرام نہ کھولے اور دس روزے رکھے اور پھر احرام کھول کر حلال ہو جائے، اور اگر اس نے احرام کے وقت یہ شرط عائد کی ہو کہ اگر مجھے کسی روکنے والے نے روک دیا تو میں وہاں حلال ہو جاؤں گا جہاں کوئی مجھے روک دے گا تو پھر اس پر کوئی چیز لازم نہیں۔ اس صورت میں اس کے لیے یہ جائز ہے کہ قربانی کے بغیر ہی احرام کھول کر حلال ہو جائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب