میرا ایک قریبی عزیز فریضہ حج ادا کرنے کے لیے 1406ھ میں یہاں آیا اور اس نے رمی جمار کے پہلے دن اصغر، اوسط اور اکبر کو ترتیب کے ساتھ رمی کرنے کے بجائے اس ترتیب کو بدل دیا اور اس غلطی کے بارے میں اسے دوسرے دن اس وقت علم ہوا جب کہ اس نے دوسرے اور تیسرے دن صحیح رمی کی اور پہلے دن جو اس نے غلط رمی کی تھی اس کے بجائے دوبارہ رمی کی اور نہ کوئی کفارہ ادا کیا حتیٰ کہ دیگر تمام مناسک حج ادا کرنے کے بعد وہ اپنے ملک واپس لوٹ گیا اور اس نے خط ارسال کر کے اپنی اس غلطی کے بارے میں پوچھا ہے اور لکھا ہے کہ اس نے جب علماء سے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھا ہے، ان کی آراء مختلف ہیں؟
اس شخص پر دم لازم ہے اور وہ یہ کہ اونٹ یا گائے کے ساتوین حصہ کو یا ایک عدد بھیڑ کو یا ایسی بکری کو جس کے سامنے کے دو دانت گر گئے ہوں، مکہ مکرمہ میں ذبح کر کے حرم کے فقراء میں تقسیم کر دے کیونکہ اسے رمی کے دنوں ہی میں اس مسئلہ کے بارے میں علم ہو گیا تھا اور پھر اس نے حکم شریعت کے مطابق رمی کا اعادہ نہ کیا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "جو شخص حج کے کسی عمل کو ترک کر دے یا اسے بھول جائے تو وہ خون بہائے۔"[1]
اور یاد رہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول مرفوع حدیث کے حکم میں ہے کیونکہ ایسی بات اپنی رائے سے نہیں کہی جا سکتی اور پھر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کسی نے اس مسئلہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مخالفت بھی نہیں کی۔
[1] موطا امام مالک، الحج، باب جامع الفدیۃ، حدیث: 257، 1/419/420