سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

ایام تشریق میں زوال سے پہلے رمی جمار جائز نہیں

  • 9156
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 720

سوال

ایام تشریق میں زوال سے پہلے رمی جمار جائز نہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک حاجی کا تعلق بیرون ملک سے ہے اور وہ سفر کے حالات، ٹکٹوں اور طیاروں کی ترتیب کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور اس نے شہر میں پوچھا کیا 13/12/1405ھ کی عصر کے وقت چار بجے سیٹ کی بکنگ ممکن ہے تو اسے بتایا گیا کہ ہاں یہ ممکن ہے تو اس نے اس وقت کی سیٹ بک کروائی لیکن پھر اسے تیرہویں تاریخ کی رات منیٰ ہی میں بسر کرنا پڑی تو کیا اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ صبح کے وقت رمی کر لے اور پھر سفر شروع کرے کیونکہ اگر وہ زوال کے بعد لیٹ ہو گیا تو سفر نہ کر سکے گا اور اس صورت میں اسے مشقت بھی بہت ہو گی اور ملکی قوانین کی مخالفت بھی لازم آئے گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ تو جائز نہیں کہ وہ زوال سے پہلے رمی کرے، ہاں البتہ یہ ممکن ہے کہ اس حالت میں ضرورت کے پیش نظر اس سے رمی ساقط ہو جائے گی اور اس پر فدیہ لازم ہو گا، جسے وہ خود یا اس کا وکیل منیٰ یا مکہ میں ذبح کر کے فقراء میں تقسیم کر دے اور یہ طواف وداع کر کے سفر کرے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ایک قول کے مطابق زوال سے قبل بھی رمی کرنا جائز ہے تو ہم عرض کریں گے کہ یہ قول صحیح نہیں ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ زوال سے قبل رمی جائز نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

(خذوا عني مناسككم) (صحيح مسلم ‘ الحج‘ باب استحباب رمي جمرة العقبة...الخ‘ ح: 1297 والسنن الكبري للبيهقي: 5/125واللفظ له)

"مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔"

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد رمی فرمائی تھی، اگر کوئی یہ کہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زوال کے بعد رمی کرنا محض آپ کا فعل ہے اور محض فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا، تو ہم عرض کریں گے کہ ہاں یہ صحیح ہے کہ یہ مجرد فعل ہے اور مجرد فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم نہیں دیا کہ رمی زوال کے بعد ہو اور نہ زوال سے پہلے رمی کرنے سے منع فرمایا ہے اور یہ صحیح ہے کہ فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ وجوب تو اس وقت ثابت ہوتا ہے جب کسی فعل کا حکم دیا گیا ہو یا کسی فعل کے ترک سے منع کر دیا گیا ہو، لیکن ہم عرض کریں گے کہ یہ ایک ایسا فعل ہے جس کے وجوب پر قرینہ دلالت کناں ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمی کو مؤخر کرتے حتیٰ کہ سورج زوال پذیر ہو جاتا اور اگر رمی زوال آفتاب سے قبل جائز ہوتی تو آپ ضرور زوال سے قبل رمی فرماتے کیونکہ اس میں لوگوں کے لیے زیادہ سہولت اور آسانی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ کو جب دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ ان میں سے آسان ترین کو منتخب فرما لیتے بشرطیکہ وہ کام گناہ کا نہ ہوتا اور اگر آپ نے یہاں آسان کام کو منتخب نہیں فرمایا جو کہ یقینا قبل از زوال رمی ہے تو معلوم ہوا کہ   قبل از زوال رمی کرنا گناہ ہے۔ زوال کے بعد رمی کرنےکے وجوب پر دلالت کرنے والا دوسرا قرینہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زوال آفتاب کے فورا بعد اور نماز ظہر سے قبل رمی شروع فرما دیا کرتے تھے گویا آپ زوال کا شدت سے انتظار فرمایا کرتے تاکہ جلد رمی کر سکیں اور اس کے لیے نماز ظہر کو بھی مؤخر فرما دیتے حالانکہ نماز کو اول وقت ادا کرنا افضل ہے لیکن یہ سارا اہتمام صرف اس لیے ہوتا کہ رمی زوال کے بعد کر سکیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے