اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو منیٰ میں تین یا دونوں دنوں کی راتیں بسر نہ کرے تو کیا اس پر ہر رات بسر کرنے کی وجہ سے ایک دم لازم ہو گا یا تینوں راتوں کے لیے ایک دم ہی کافی ہو گا، امید ہے دلیل کے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں گے؟
جو شخص کسی عذر کے بغیر ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں بسر نہیں کرتا تو وہ افعال و ارکان حج میں سے ایک ایسے فعل کا تارک ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے مشروع قرار دیا ہے اور اس کے ترک کی آپ نے صرف عذر والوں مثلا چرواہوں اور سقوں وغیرہ ہی کو رخصت دی ہے اور رخصت عزیمت کے بالمقابل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایام تشریق کی راتوں کو منیٰ میں بسر کرنا، اہل علم کے صحیح قول کے مطابق واجبات حج میں شمار کیا گیا ہے، لہذا جو شخص اسے شرعی عذر کے بغیر ترک کر دے تو اس پر دم لازم ہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ "جو شخص حج کے کسی عمل کو ترک کر دے یا بھول جائے تو وہ خون بہائے۔"[1] ان تمام راتوں کے لیے ایک دم ہی کافی ہو گا۔
[1] موطا امام مالک، الحج، باب جامع الفدیۃ، حدیث: 257، 1/419/420