سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

عرفہ وغیرہ میں اجتماعی دعا

  • 9124
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 870

سوال

عرفہ وغیرہ میں اجتماعی دعا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عرفہ کے دن عرفات میں اجتماعی دعا کے بارے میں کیا حکم ہے؟ مثلا یہ کہ ایک حاجی دعاؤں کی کتابوں میں وارد بعض دعاؤں کو عرفہ وغیرہ کے دن پڑھے اور اس سے سن کر باقی حاجی ان دعاؤں کو بار بار دہرائیں اور آمین نہ کہیں تو کیا اس طرح کی یہ دعا بدعت ہے؟ امید ہے دلیل کے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں گے!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس عظیم الشان دن میں حاجی کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہِ اقدس میں خوب خشوع و خضوع اور الحاح و زاری کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غروب آفتاب تک یہ دن دعا اور ذکر الہی میں صرف فرمایا تھا۔ آپ نے جب وادی عرنہ میں ظہر و عصر کی نمازیں جمع و قصر کی صورت میں ادا فرمائیں، پھر موقف تشریف لے گئے، صخرات اورجبل دعا۔۔۔جسے جبل آل بھی کہتے ہیں۔۔۔ کے پاس وقوف فرمایا اور دعا اور ذکر الہی میں خوب خوب مشغول رہے، دعا کے لیے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور قبلہ رخ اور اپنی ناقہ پر سوار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ الحاح وزاری، آہستگی، شوق اور ڈر کے ساتھ اس سے دعا کریں۔ عرفہ دعا کے لیے بہترین جگہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ادعوا رَ‌بَّكُم تَضَرُّ‌عًا وَخُفيَةً ۚ إِنَّهُ لا يُحِبُّ المُعتَدينَ ﴿٥٥﴾... سورةالاعراف

"(لوگو) اپنے رب سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔"

نیز فرمایا:

﴿وَاذكُر‌ رَ‌بَّكَ فى نَفسِكَ...﴿٢٠٥﴾... سورة الاعراف

"اور اپنے رب کو اپنے دل ہی میں یاد کرتے رہو۔"

صحیحین میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے بلند آواز سے دعا شروع کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ايها الناس! اربعوا علي انفسكم‘ انكم ليس تدعون اصم ولا غائبا‘ انكم تدعونه سميعا قريبا وهو معكم والذي تدعونه اقرب الي احدكم من عنق راحلة احدكم) (صحيح البخاري‘ الجهاد‘ باب مايكره من رفع الصوت في التكبير‘ ح: 2992 وصحيح مسلم‘ الذكر والدعا‘ باب استحباب خفض الصوت بالذكر...الخ‘ ح: 2704 واللفظ له)

"لوگو! اپنے آپ پر شفقت و مہربانی کرو، تم کسی ایسی ہستی کو نہیں پکار رہے جو گونگی یا غائب ہو بلاشبہ تم جسے پکار رہے ہو وہ سمیع، قریب اور تمہارے ساتھ ہے اور جس ذات اقدس کو پکار رہے ہو وہ تم سے تمہاری سواری کی گردن سے بھی قریب تر ہے۔"

اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کے انداز دعا کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تعریف کی اور فرمایا:

﴿ذِكرُ‌ رَ‌حمَتِ رَ‌بِّكَ عَبدَهُ زَكَرِ‌يّا ﴿٢ إِذ نادىٰ رَ‌بَّهُ نِداءً خَفِيًّا ﴿٣﴾... سورة مريم

"یہ تمہارے رب کی مہربانی کا بیان (ہے جو اس نے) اپنے بندے زکریا پر (کی تھی) جب انہوں نے اپنے رب کو دبی آواز سے پکارا۔"

نیز فرمایا:

﴿وَقالَ رَ‌بُّكُمُ ادعونى أَستَجِب لَكُم...٦٠﴾... سورة غافر

"اور تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا۔"

بے شمار آیات و احادیث ہیں جن میں ذکر الہی اور دعا کی ترغیب کا ذکر ہے اور اس جگہ پر تو خالص طور پر کثرت کے ساتھ اخلاص، ضحور قلب، ڈر اور شوق کے ساتھ خوب خوب دعا اور ذکر کرنا چاہیے۔ اس مقام پر بلند آواز سے ذکر، دعا اور تلبیہ بھی جائز ہے جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا گیا ہے۔ اگر کوئی انسان ایک جماعت کے ساتھ مل کر دعا کر رہا ہو اور سب لوگ اس کی دعا پر آمین کہہ رہے ہوں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، جیسا کہ قنوت، ختم قرآن اور استسقاء کی اجتماعی دعا میں یہ جائز ہے لیکن عرفہ کے دن عرفہ کے علاوہ کسی اور جگہ پر اجتماع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور آپ نے فرمایا ہے:

(من عمل عملا ليس عليه امرنا فهو رد) (صحيح مسلم‘ الاقضية‘ باب نقض الاحكام الباطلة ...الخ‘ ح: 1718)

"جو کوئی ایسا عمل کرے جس کے بارے میں ہمارا امر نہ ہو تو وہ (عمل) مردود ہے۔"

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے