سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) اسمائے الہی ننانوے تک محدود نہیں

  • 911
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2358

سوال

(30) اسمائے الہی ننانوے تک محدود نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اللہ تعالیٰ کے اسماء محصور و(محدود) ہیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اللہ تعالیٰ کے اسماء کسی معین عدد کے ساتھ محصور نہیں ہیں جس کی دلیل یہ صحیح حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:

«اَللّٰهُمَّ إِنِّی عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ أَمَتِکَ نَاصِيَتِی بِيَدِکَ مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُکَ أَسْأَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ هُوَ لَکَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَکَ َ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِی کِتَابِک أوعلمته أحدا من خلقکَ أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِی عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَکَ»(مسند احمد: ۳۹۱/۱)

’’اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری باندی کا فرزندأرجمند ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، مجھ پر تیرا ہی حکم چلتا ہے، میرے بارے میں تیرا فیصلہ انصاف پر مبنی ہے، میں تیرے ہر اس نام کے وسیلے سے تجھ سے دعا کرتا ہوں جس سے تو نے اپنی ذات پاک کوموسوم کیا ہے یا جو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی سکھایا ہے یا جس کو تو نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے یا جسے تو نے علم غیب میں اپنے ہی پاس رکھنے کو ترجیح دی ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے ان اسمائے حسنیٰ کو معلوم کرنا ممکن ہی نہیں جنہیں اس نے اپنے پاس علم غیب میں رکھنے کو ترجیح دی ہے اور جو چیز معلوم نہ ہو وہ کسی عدد میں محصور بھی نہیں ہوسکتی۔ جہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا تعلق ہے:

«إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَّتِسْعِينَ اِسْمًا مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ»صحیح البخاری، الشروط، باب ما یجوز من الاشراط… ح: ۲۷۳۶، (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب فی اسماء اللہ تعالی و فضل من احصاها، ح: ۲۶۷۷)

’’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، جس نے انہیں شمار کیا (انہیں یاد کیا اور پڑھا) تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘

تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے صرف یہی اسماء ہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے جو ان ننانوے اسماء کو شمار کرے گا تو وہ  اس عمل کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگا: (مَنْ اَحْصَاہَا) ’’جو انہیں شمار کرے گا‘‘ یعنی انہیں یاد کرے گا اور پڑھے گا، یہ الگ نیا جملہ نہیں بلکہ پہلے جملے ہی کا تتمہ اور تکملہ ہے۔ اس کی نظیر اہل عرب کا یہ قول ہے: ’’میرے پاس سو گھوڑے ہیں جنہیں میں نے اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے تیار کر رکھا ہے۔‘‘

اس جملے کے یہ معنی نہیں کہ اس شخص کے پاس بس صرف یہی سو گھوڑے ہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ سو گھوڑے اس کام کے لیے تیار ہیں جس کو وہ انجام دینا چاہتا ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اس بات پر ماہرین حدیث کا اتفاق ہے کہ ان(۹۹ناموں) کو گننا اور مسلسل ورد کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ بلاشبہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  نے یہ سچ فرمایا ہے کیونکہ ان اسماء کے بارے میں بہت زیادہ اختلافات ہیں۔ جنہوں نے اس حدیث کو صحیح قرار دینے کی کوشش کی ہے انہوں نے کہا ہے کہ یہ ایک بڑی عظیم الشان بات ہے کہ یہ ننانوے  اسماء حسنی جنت میں پہنچانے والے ہیں، اگر ایسا ہی ہے جیساکہ ان کا دعوی ہے تو یہ بات کیسے ممکن ہے کہ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان اسماء کی تعیین کے بارے میں سوال نہ کریں، یہ دلیل ہے اس بات کی کہ ان کی تعیین نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف سے ہے لیکن اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے اس کے بارے میں پوچھا ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اسماء کی تعیین فرمائی دی ہو کیونکہ اگر معاملہ اسی طرح ہے جیساکہ بیان ہوا تو ان ننانوے اسمائے حسنیٰ کا علم اظہر من الشمس ہوتا اور صحیحین وغیرہ میں یہ ضرور منقول ہوتے، کیونکہ لوگوں کو ان کی شدید ضرورت تھی مگر اس کا کیا کیا جائے کہ یہ ضعیف سندوں کے ساتھ مختلف صورتوں میں منقول ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بلیغ حکمت کے پیش نظر انہیں بیان نہیں فرمایا اور وہ بلیغ حکمت یہ تھی کہ لوگ خود انہیں کتاب اللہ وسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تلاش کریں تاکہ معلوم ہو کہ کس کو ان کا شوق ہے اور کس کو شوق نہیں ہے۔

انہیں شمار کرنے کے یہ معنی نہیں کہ انہیں کاغذ کے پرزوں پر لکھا جائے اور پھر بار بار پڑھا جائے تاکہ حفظ ہو جائیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں:

 ٭          ان کے الفاظ کا احاطہ کیا جائے۔

٭           ان کے معنی و مفہوم کو سمجھا جائے۔

٭           ان کے تقاضے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور اس کی دو صورتیں ہیں:

۱:…ان اسماء کا وسیلہ کے ساتھ دعا کی جائے، کیونکہ رشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَادْعُوْہُ بِہَا﴾ (الاعراف: ﴿١٨٠

’’تو تم اس کو اس کے ناموں سے پکارا کرو۔‘‘

ان اسماء کو حصول مطلوب کے لیے وسیلہ بنا لیا جائے اس کی صورت یہ ہے کہ اپنے مطلوب کے مناسب حال ان میں سے کسی اسم پاک کو منتخب کریں اور اس کے وسیلے سے دعا کریں، مثلاً: مغفرت کی دعا کے لیے یہ کہیں: (یَا غَفُوْرُ اغْفِرْلِیْ) ’’اے بخشنے والے! مجھے معاف فرما دے۔‘‘ یہ مناسب نہیں کہ آپ یوں کہیں: (یَا شَدِیْدَ الْعِقَابِ اغْفِرْلِیْ) ’’اے سخت عذاب والے مجھے معاف کر دے۔‘‘ کیونکہ یہ صورت تو مذاق کی سی ہوگی، مگراس صورت میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ (اَجِرْنِیْ مِنْ عِقَابِکَ) ’’اے سخت عذاب والے مجھے اپنے عذاب سے بچا لے۔‘‘

۲:…اپنی عبادت میں ایسے امور پیش کرو جو ان اسماء کے تقاضے کے مطابق ہوں، مثلاً: اسم پاک ’’رحیم‘‘ رحمت کا تقاضا کرتا ہے، تو آپ ایسا عمل صالح کریں جو اس کی رحمت کے حصول کا سبب بن جائے، انہیں شمار کرنے کے یہی معنی ہیں اور اس صورت میں ان کے مطابق عمل یقینا جنت میں داخل ہونے کی قیمت بن جائے گا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ75

محدث فتویٰ

 

تبصرے