جب کوئی آدمی اپنی طرف سے رمی کے ساتھ ساتھ اپنے ماں باپ کی طرف سے بھی رمی میں نیابت کرے تو کیا اس کے لیے کوئی خاص ترتیب لازم ہے یا اسے اختیار ہے کہ جس کی طرف چاہے پہلے رمی کر لے؟
جب کوئی شخص اپنے ماں باپ کے مرض یا عجز کی وجہ سے رمی جمار میں ان کی نیابت کرے تو وہ پہلے اپنی طرف سے رمی کرے اور پھر اپنے ماں باپ کی طرف سے، اور والدین کی طرف سے رمی کرتے ہوئے اگر اپنی ماں کی طرف سے پہلے رمی کرے تو یہ افضل ہے کیوں کہ ماں کا حق زیادہ ہے، اور اگر پہلے باپ کی طرف سے رمی کرے تو بھی کوئی حرج نہیں لیکن پہلے اسے اپنی طرف سے خصوصا جب کہ حج فرض ہو، رمی کرنا چاہیے۔
نفل حج میں کوئی حرج نہیں خواہ پہلے اپنی رمی کرے یا اپنے ماں باپ کی طرف سے، ہاں البتہ افضل اور احسن یہ ہے کہ پہلے اپنی طرف سے، پھر ماں کی طرف سے اور پھر باپ کی طرف سے رمی کرے اور ایک ہی موقف میں اور عید کے دن رمی کرے، عید کے علاوہ باقی دنوں میں زوال کے بعد رمی کرے اور ہر جمرہ کو اکیس اکیس کنکریاں مارے۔ اگر بعض کی طرف سے رمی کو بعض پر مقدم کر دے تو پھر بھی کوئی حرج نہیں۔ اگر باپ کی طرف سے رمی کو ماں کی طرف سے رمی پر یا ان دونوں کی طرف سے رمی کو اپنی طرف سے رمی پر مقدم کر دے تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ حج نفل ہو اور حج اگر فرض ہو تو پھر یہ ضروری ہے کہ پہلے اپنی طرف سے اور پھر اپنے ماں باپ کی طرف سے رمی کرے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب