میری والدہ میرے والد کے ساتھ حج کے لیے گئیں اور ان کے ساتھ تین اور آدمیوں کی جماعت بھی تھی اور ہر آدمی کے ساتھ اس کی بیوی بھی تھی تاکہ سب مل کر فریضہ حج ادا کر سکیں، چنانچہ ان سب نے فریضہ حج ادا کیا لیکن طواف وداع کے وقت حرم حاجیوں سے بھرا ہوا تھا، لہذا میری والدہ کے ہمراہ عورتیں حرم میں داخل نہ ہو سکیں اور انہوں نے اپنے شوہروں کو وکیل بنا لیا لیکن میری والدہ نے نذر مانی کہ وہ خود طواف کرے گی اور پھر واقعی انہوں نے خود ہی طواف کیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ حرم کے اندر اس نذر کے بارے میں کیا حکم ہے؟ نیز کیا طواف وداع میں وکالت جائز ہے؟
طواف میں وکالت جائز نہں،خواہ طواف زیارت ہو یو وداع، لہذا جو شخص طواف ترک کر دے، اس کا حج مکمل نہیں، ہاں البتہ طواف وداع ترک کرنے کا کفارہ یہ ہے کہ مکہ میں ایک جانور ذبح کر کے حرم کے مسکینوں کو کھلا دیا جائے، طواف وداع حائضہ و نفساء سے ساقط ہو جاتا ہے جبکہ انہوں نے طواف زیارت کیا ہو، اس نذر کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ طواف واجب کے لیے نذر کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسے تو خود شریعت نے واجب قرار دے رکھا ہے، ہاں البتہ اگر کوئی شخص ایسے طواف کی نذر مانتا ہے جو واجب نہیں ہے تو پھر اس نذر کو پورا کرنا لازم ہے کیونکہ وہ بھی نذر ماننے کی وجہ سے واجب ہو گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نزریں پوری کریں اور خانہ قدیم (یعنی بیت اللہ) کا طواف کریں۔"
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب