اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو دوسرے دن رمی جمرات کے لیے کسی کو اپنا وکیل مقرر کرے؟ اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو طواف وداع میں کسی کو وکیل مقرر کر کے خود اپنے ملک کے لیے سفر پر روانہ ہو جائے؟ کیا اس کے لیے یہ جائز ہے جبکہ وہ خود بھی جوان ہو؟
اولا: اگر موکل خود رمی کرنے سے عاجز ہو اور وکیل حاجی، مکلف اور قابل اعتماد ہو تو رمی میں وکالت صحیح ہے اور خواہ موکل جوان ہی کیوں نہ ہو، وکیل کو چاہیے کہ پہلے خود اپنی طرف سے رمی کرے اور پھر اپنے موکل کی طرف سے، اگر موکل خود رمی کرنے کی طاقت رکھتا ہو یا وکیل غیر مکلف یا غیر حاجی ہو تو پھر رمی میں وکالت صحیح نہیں اور اس پر دم لازم ہو گا۔
ثانیا: طواف وداع اور بیت اللہ کے کسی بھی دوسرے طواف میں وکالت صحیح نہیں ہے، لہذا جو شخص طواف وداع میں کسی کو وکیل بناتا اور خود طواف نہیں کرتا تو وہ گناہ گار ہوتا ہے اور اس کے ذمہ دم لازم آتا ہے، یعنی طواف وداع ترک کرنے کی وجہ سے اسے حرم میں جانور ذبھ کرنا ہو گا۔ موکل کو اس وقت تک سفر نہیں کرنا چاہیے جب تک وکیل رمی نہ ک لے اور رمی ختم ہونے کے بعد وہ خود طواف وداع نہ کر لے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواباولا: اگر موکل خود رمی کرنے سے عاجز ہو اور وکیل حاجی، مکلف اور قابل اعتماد ہو تو رمی میں وکالت صحیح ہے اور خواہ موکل جوان ہی کیوں نہ ہو، وکیل کو چاہیے کہ پہلے خود اپنی طرف سے رمی کرے اور پھر اپنے موکل کی طرف سے، اگر موکل خود رمی کرنے کی طاقت رکھتا ہو یا وکیل غیر مکلف یا غیر حاجی ہو تو پھر رمی میں وکالت صحیح نہیں اور اس پر دم لازم ہو گا۔
ثانیا: طواف وداع اور بیت اللہ کے کسی بھی دوسرے طواف میں وکالت صحیح نہیں ہے، لہذا جو شخص طواف وداع میں کسی کو وکیل بناتا اور خود طواف نہیں کرتا تو وہ گناہ گار ہوتا ہے اور اس کے ذمہ دم لازم آتا ہے، یعنی طواف وداع ترک کرنے کی وجہ سے اسے حرم میں جانور ذبھ کرنا ہو گا۔ موکل کو اس وقت تک سفر نہیں کرنا چاہیے جب تک وکیل رمی نہ ک لے اور رمی ختم ہونے کے بعد وہ خود طواف وداع نہ کر لے۔