ایک عورت نے رمی جمار کے علاوہ دیگر تمام مناسک حج کو ادا کر دیا اور رمی کے لیے اس نے کسی کو اپنا وکیل مقرر کر دیا کیونکہ اس کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ تھا اور یہ اس کا فرض حج تھا تو اس بارے میں کیا حکم ہے، فتویٰ دیجئے، اللہ تعالیٰ آپ کو اجروثواب سے نوازے گا؟
اس سلسلہ میں اس پر کچھ لازم نہیں، وکیل کا رمی کرنا جائز ہے۔ رمی جمار کے وقت رش کی وجہ سے عورتوں کے لیے خصوصاجن کے ہمراہ بچے بھی ہوں، بہت خطرہ ہوتا ہے لہذا ان کے لیے وکالت جائز ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب