کیا طاقت ور شخص کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ رمی جمار کے لیے ایام تشریق کے دوسرے دن کسی اور شخص کو اپنا وکیل مقرر کر دے کیونکہ گھریلو حالات کی وجہ سے میرا آج ریاض واپس جانا ضروری ہے یا اس کی وجہ سے مجھ پر دم لازم ہو گا؟
کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی کو اپنا نائب بنائے اور رمی کی تکمیل سے قبل خود سفر کرے بلکہ واجب یہ ہے کہ اگر اسے قدرت ہے تو خود رمی کرے اور اگر خود عاجز ہو تو انتظار کرے، کسی کو اپنا نائب مقرر کرے اور اس وقت تک سفر نہ کرے جب تک اس کا وکیل رمی جمار سے فارغ نہ ہو جائے، پھر یہ موکل طواف وداع کرے اور پھر اس کے بعد وہ سفر کر سکتا ہے۔
اگر کوئی شخص خود صحیح سالم ہو تو اس کے لیے کسی کو وکیل بنانا جائز نہیں بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ خود رمی کرے کیونکہ اس نے جب حج کا احرام باندھا ہے تو اس پر واجب ہے کہ اس کی تکمیل بھی کرے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور اللہ (کی خوشنودی) کے لیے حج اور عمرے کو پورا کرو۔"
اسی طرح عمرہ کے لیے بھی یہی حکم ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں مذکور ہے کہ جب ایک دفعہ شروع کر دیا جائے تو پھر واجب ہے کہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ صحیح قول کے مطابق اس شخص کے لیے بعض اعمال حج میں وکالت جائز نہیں جو انہیں سر انجام دینے پر قادر ہو اور اگر کوئی شخص رمی سے قبل سفر کر جائے تو اس کے لیے جانور ذبح کر کے فقراء مکہ کو کھلانا واجب ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب