سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

رمی جمار میں وکالت

  • 9056
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1160

سوال

رمی جمار میں وکالت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمہ جمار میں کب وکالت جائز ہے؟ کیا کچھ ایسے ایام بھی ہیں، جن میں وکالت جائز نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تمام جمرات میں وکالت جائز ہے اس مریض کے لیے جو رمی کرنے سے عاجز ہو، اس حاملہ کے لیے جسے اپنے بارے میں خطرہ ہو، اس مرضعہ کے لیے جس کے بچوں کی حفاطت کے لیے کوئی نہ ہو، اور اس بوڑھے ،مرد و عورت کے لیے جو رمی کرنے سے عاجز ہوں، اسی طرح چھوٹے بچے اور بچی کی طرف سے ولی رمی کر سکتا ہے۔ وکیل اپنی طرف سے اور اپنے مؤکل کی طرف سے ہر جمرہ کے پاس ایک ہی وقت میں رمی کر سکتا ہے، وہ پہلے اپنی طرف سے رمی کرےاور ھر اپنے موکل کی طرف سے، الا یہ کہ وکیل کا نفل حج ہو تو پھر اس کے لیے یہ لازم نہیں کہ اپنی طرف سے پہلے رمی کرے، لیکن یاد رہے کہ رمی میں وکالت صرف حاجی ہی کر سکتا ہے، جو شخص حج نہ کر رہا ہو تو وہ رمی میں دوسرے کی وکالت بھی نہیں کر سکتا اور نہ اس کا کسی دوسرے کی طرف سے رمی کرنا جائز ہی ہو گا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے