سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(78) قبر والوں سے دعا اور ان کا طواف حرام ہے

  • 901
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3138

سوال

(78) قبر والوں سے دعا اور ان کا طواف حرام ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو شخص قبروں کی پوجا کرے، ان کے گرد طواف کرے،اور قبر والوں سے دعا کرے، ان کے لیے نذر مانے یا اس قسم کی دیگر عبادات بجا لائے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

یہ ایک بہت عظیم سوال ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کی توفیق ومدد کے ساتھ اس کا جواب قدرے تفصیل کے ساتھ دیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اصحاب قبور کی درج ذیل دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم:

 جس شخص کا اسلام پر خاتمہ ہوا ہو اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہوں، ایسے شخص کے لیے خیر و بھلائی کی امید ہے، لیکن وہ اس بات کا بھی محتاج ہے کہ مسلمان بھائی اس کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے مغفرت ورحمت سے سرفراز فرمائے۔ ایسا شخص حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے عموم میں داخل ہے:

﴿وَالَّذينَ جاءو مِن بَعدِهِم يَقولونَ رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخونِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمـنِ وَلا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ ءامَنوا رَبَّنا إِنَّكَ رَءوفٌ رَحيمٌ ﴿١٠﴾... سورة الحشر

’’اور (مال فے ان کے لیے بھی ہے) جو ان (مہاجرین وانصار) کے بعد آئے (اور) وہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو، جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں، معاف فرما اور مومنوں کے لیے ہمارے دل میں کینہ (وحسد) پیدا ہونے نہ دے۔ اے ہمارے پروردگار! تو بڑا شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘

وہ شخص جو فوت ہوگیا ہو، وہ خود کسی کو کوئی نفع نہیں دے سکتا، کیونکہ وہ خود ایک بے جان لاشہ ہے۔ وہ اپنی یا کسی کی تکلیف کو دور کرنے کی قطعاً کوئی استطاعت نہیں رکھتا اور نہ اپنے آپ کو یا کسی کو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے، لہٰذا وہ اس بات کا محتاج ہے کہ اس کے مسلمان بھائی اسے نفع پہنچائیں وہ خود اپنے مسلمان بھائیوں کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا۔

دوسری قسم:

 اصحاب قبور میں سے دوسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جن کے افعال ایسے فسق و فجور تک پہنچ گئے ہوں جن کی وجہ سے انسان ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہو، مثلاً: وہ لوگ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اولیاء ہیں، غیب جانتے ہیں، بیماری سے شفا عطا کر سکتے ہیں اور وہ مختلف طریقوں سے نفع پہنچاتے ہیں، جو حسی اور شرعی طور پر معلوم نہیں، تو ایسے لوگوں کا خاتمہ کفر پر ہوتاہے، ان کے لیے دعا کرنا یا رحمۃ اللہ علیہ کہنا جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے منع فرما دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ما كانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذينَ ءامَنوا أَن يَستَغفِروا لِلمُشرِكينَ وَلَو كانوا أُولى قُربى مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُم أَنَّهُم أَصحـبُ الجَحيمِ ﴿١١٣ وَما كانَ استِغفارُ إِبرهيمَ لِأَبيهِ إِلّا عَن مَوعِدَةٍ وَعَدَها إِيّاهُ فَلَمّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنهُ إِنَّ إِبرهيمَ لَأَوّهٌ حَليمٌ ﴿١١٤﴾... سورة التوبة

’’پیغمبر اور مسلمانوں کے شایان نہیں جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل دوزخ ہیں، تو ان کے لیے بخشش کی دعاء مانگیں، گو وہ ان کے قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں۔ اور ابراہیم(علیہ السلام) کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا تو ایک وعدے کے سبب تھا، جو وہ اس سے کر چکے تھے، لیکن جب ان کو معلوم ہوگیا کہ وہ اللہ کا پکا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابراہیم علیہ السلام بڑے نرم دل اور متحمل مزاج تھے۔‘‘

ایسے لوگ کسی کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ نفع اور نہ ہی کسی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے امیدیں وابستہ کرے۔ اگر ایسا ہو کہ کسی شخص کو ان کی کچھ کرامات نظر آتی ہوں، مثلاً: یہ کہ اس نے ان کی قبروں میں نور دیکھا ہو یا ان کی قبروں سے اچھی خوشبو وغیرہ محسوس کی ہو جب کہ ان کے بارے میں مشہور یہ ہو کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے، تو یہ باتیں ابلیس کا دھوکہ اور فریب ہوں گی تاکہ وہ لوگوں کو ان قبروالوں کی وجہ سے فتنے میں مبتلا کر دے۔

میں اپنے مسلمان بھائیوں کو خبردار کرتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے وابستہ نہ ہوں، کیونکہ اللہ ہی کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، تمام امور کا انجام اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی مجبور ومضطر کی دعا سن سکتا ہے نہ اس کی تکلیف دور کر سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَما بِكُم مِن نِعمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ثُمَّ إِذا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيهِ تَجـَٔرونَ ﴿٥٣﴾... سورة النحل

’’اور جو نعمتیں تم کو میسر ہیں، وہ سب اللہ کی طرف سے ہیں، پھر جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کے آگے تم نالہ وفریاد کرتے ہو۔‘‘

مسلمان بھائیوں کو میری یہ بھی نصیحت ہے کہ دین کے بارے میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کی بھی تقلید یا اتباع نہ کریں، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَرجُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثيرًا ﴿٢١﴾... سورة الأحزاب

’’یقینا تمہارے لیے رسول اللہ (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ (سے ملاقات) اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔‘‘

اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى يُحبِبكُمُ اللَّهُ...﴿٣١﴾... سورة آل عمران

’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا۔‘‘

تمام مسلمانوں کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ ولایت کا دعویٰ کرنے والے کے اعمال کا کتاب وسنت کی روشنی میں جائزہ لیں۔ اگر وہ کتاب وسنت کے مطابق ہوں تو امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اولیاء اللہ میں سے ہو اور اگر وہ کتاب وسنت کے مخالف ہوں تو پھر ایسا شخص اولیاء اللہ میں سے ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اولیاء اللہ کی پہچان کے لیے مبنی برعدل وانصاف یہ میزان اور کسوٹی بیان فرما دی ہے:

﴿أَلا إِنَّ أَولِياءَ اللَّهِ لا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ﴿٦٢ الَّذينَ ءامَنوا وَكانوا يَتَّقونَ ﴿٦٣﴾... سورة يونس

’’سن لو! بے شک جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے۔ (یعنی) وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کواپنا شیوہ زندگی بناکر ڈرتے اورخوف کھاتے رہے۔‘‘

جو شخص مومن اور متقی ہو وہ اللہ کا ولی ہوگا اور جو مومن اور متقی نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ کا ولی ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اگر اس میں ایمان و تقویٰ کا کچھ حصہ ہو تو اس میں ولایت کا بھی کچھ حصہ ہو سکتا ہے لیکن کسی شخص کے بارے میں پورے وثوق کے ساتھ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے بلکہ عمومی طور پر ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو مومن ومتقی ہو وہ اللہ کا ولی بھی ہوگا۔

معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بسا اوقات ان جیسے امور کے ساتھ انسان کی آزمائش بھی کرتا ہے۔ انسان کسی قبر کے ساتھ و ابستہ ہو کر صاحب قبر سے دعا کرتا یا اس کی مٹی کو تبرک کے طور پر لے لیتا ہے اور بظاہر اس سے اس کا مطلوب حاصل بھی ہو جاتا ہے، لیکن درحقیقت یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے کیونکہ اس بارے میں ہم یقین ہے کہ کوئی صاحب قبر دعا قبول نہیں کر سکتا اور کسی قبر کی مٹی کسی تکلیف کو دور نہیں کر سکتی اور نہ ہی کوئی نفع پہنچا سکتی ہے۔ ہمیں یہ باتیں اس لیے معلوم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے:

﴿وَمَن أَضَلُّ مِمَّن يَدعوا مِن دونِ اللَّهِ مَن لا يَستَجيبُ لَهُ إِلى يَومِ القِيـمَةِ وَهُم عَن دُعائِهِم غـفِلونَ ﴿٥وَإِذا حُشِرَ النّاسُ كانوا لَهُم أَعداءً وَكانوا بِعِبادَتِهِم كـفِرينَ ﴿٦﴾... سورة الأحقاف

’’اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے اور اس کو ان کے پکارنے ہی کی خبر نہ ہو اور جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور وہ ان کی پرستش سے انکار کریں گے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَالَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ لا يَخلُقونَ شَيـًٔا وَهُم يُخلَقونَ ﴿٢٠ أَموتٌ غَيرُ أَحياءٍ وَما يَشعُرونَ أَيّانَ يُبعَثونَ ﴿٢١﴾... سورة النحل

’’اور جن لوگوں کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کوئی چیز بھی تو تخلیق نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود تخلیق شدہ ہوتے ہیں، (وہ) مردہ ہیں زندہ نہیں ۔ انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘

اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیات کریمہ ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ کے سوا جس کسی کو بھی پکارا جائے وہ پکار کو قبول نہیں کر سکتا اور نہ ہی پکارنے والے کو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے، یہ اور بات ہے کہ غیر اللہ کو پکارنے کی صورت میں کبھی امتحان وآزمائش کے طور پر مطلوب حاصل ہو جاتا ہے۔ ہم یہاں یہ عرض کریں گے کہ یہ مطلوب دعا کرنے والے کی دعا کے وقت حاصل ہوا ہے جو غیر اللہ سے کی گئی تھی، اس شخص کی دعا کی وجہ سے نہیں جسے اللہ کے سوا پکارا جا رہا ہے اور کسی چیز کے ساتھ کسی چیز کے حصول اور کسی چیز کے پاس کسی چیز کے حصول میں فرق واضح ہے اور ہمیں علم الیقین کی حد تک یہ بات ان بہت سی آیات کریمہ کی روشنی میں معلوم ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے کہ غیر اللہ کو پکارنا نفع کے حاصل کرنے یا نقصان کے دور کرنے کا سبب نہیں ہو سکتا، لیکن امتحان آزمائش کے طور پر کبھی کبھی مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کبھی اسباب معصیت کے ساتھ بھی انسان کی آزمائش کرتا ہے تاکہ معلوم کرے کہ اس کا سچا بندہ کون ہے اور اپنی خواہشات نفس کا پجاری کون؟

یہود کے ان اصحاب سبت کو دیکھیے جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے دن میں مچھلیوں کے شکار کو حرام قرار دیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اس طرح آزمائش میں مبتلا کر دیا کہ ہفتے کے دن مچھلیاں بہت کثرت کے ساتھ آتی تھیں اور باقی دنوں میں چھپ جاتی تھیں۔ جب یہ صورت حال خاصے طویل عرصے تک رہی تو وہ کہنے لگے کہ آخر ہم اپنے آپ کو ان مچھلیوں سے کیوں محروم رکھیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں حیلے بہانے اور تدبیریں سوچنی شروع کر دیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم جال جمعے کے دن ڈال دیا کریں گے اور مچھلیوں کو اتوار کے روز پکڑ لیا کریں گے۔ انہوں نے ایسا کیا تو یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ ایک کام کو حلال قرار دینے کا ایک حیلہ تھا۔ اس لیے (مکافات عمل کے طور پر) اللہ تعالیٰ نے انہیں انسانوں کی شکل وصورت سے بندروں کی صورت میں تبدیل کر کے ذلیل ورسواکردیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَسـَٔلهُم عَنِ القَريَةِ الَّتى كانَت حاضِرَةَ البَحرِ إِذ يَعدونَ فِى السَّبتِ إِذ تَأتيهِم حيتانُهُم يَومَ سَبتِهِم شُرَّعًا وَيَومَ لا يَسبِتونَ لا تَأتيهِم كَذلِكَ نَبلوهُم بِما كانوا يَفسُقونَ ﴿١٦٣﴾... سورةالأعراف

’’اور (اے نبی!) ان (یہود مدینہ) سے اس قصبے کا حال تو پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھا۔ جب یہ لوگ ہفتے کے دن کے بارے میں حد سے تجاوز کرنے لگے، ان کے ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپراترا آتیں اور جب ہفتے کا دن نہ ہوتا تو نہ آتیں۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کو ان کی نافرمانیوں کے سبب آزمائش میں ڈالنے لگے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَلَقَد عَلِمتُمُ الَّذينَ اعتَدَوا مِنكُم فِى السَّبتِ فَقُلنا لَهُم كونوا قِرَدَةً خـسِـٔينَ ﴿٦٥ فَجَعَلنـها نَكـلًا لِما بَينَ يَدَيها وَما خَلفَها وَمَوعِظَةً لِلمُتَّقينَ ﴿٦٦﴾... سورة البقرة

’’اور تم ان لوگوں کو خوب جانتے ہو جو تم میں سے ہفتے کے دن (مچھلی کا شکار کرنے) میں حد سے تجاوز کر گئے تھے تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل وخوار بندر ہو جاؤ، پھر ہم نے اس قصے کو اس وقت کے لوگوں کے لیے اور ان کے بعد آنے والوں کے لیے عبرت اور پرہیزگاروں کے لیے نصیحت بنا دیا۔‘‘

دیکھئے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس دن ان مچھلیوں تک رسائی کو کیسے آسان بنا دیا تھا جس دن ان کے لیے شکار کو ممنوع قرار دے دیا گیا تھا؟ لیکن۔ العیاذ باللہ۔ ان لوگوں نے صبر نہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کام کو حلال قرار دینے کے لیے حیلہ وبہانہ تراش لیا۔

پھر اس واقعہ کا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے اس واقعہ سے تقابل کیجئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی اس طرح آزمائش کی کہ حالت احرام میں ان کے لیے شکار کرنے کو حرام قرار دے دیا، حالانکہ شکار ان کی زد میں تھا، لیکن انہوں نے شکار کرنے کی جرأت نہ کی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لَيَبلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَىءٍ مِنَ الصَّيدِ تَنالُهُ أَيديكُم وَرِماحُكُم لِيَعلَمَ اللَّهُ مَن يَخافُهُ بِالغَيبِ فَمَنِ اعتَدى بَعدَ ذلِكَ فَلَهُ عَذابٌ أَليمٌ ﴿٩٤﴾... سورة المائدة

’’مومنو! اللہ اس چیز کے شکار سے، جن کو تم ہاتھوں اور نیزوں سے پکڑ سکو، ضرور تمہاری آزمائش کرے گا (یعنی حالت احرام میں شکار کی ممانعت سے) تاکہ معلوم کرے کہ اس سے غائبانہ کون ڈرتا ہے، تو جو اس کے بعد حد سے گزرے، اس کے لیے دکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے۔‘‘

شکار حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے ہاتھوں کی پہنچ میں تھا، وہ اسے بآسانی شکار کر سکتے تھے لیکن وہ اللہ سے ڈر گئے اور انہوں نے قطعاً کسی قسم کا کوئی شکار نہ کیا۔

اسی طرح ہر انسان کے لیے یہ واجب ہے کہ جب اس کے لیے کسی حرام فعل کے اسباب میسر ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اس حرام فعل کا ارتکاب نہ کرے اور اس بات کو خوب جان لے کہ حرام فعل کے لیے اسباب ووسائل کا میسرآنا درحقیقت آزمائش اور امتحان ہے، لہٰذا حرام فعل کے ارتکاب سے باز رہے اور صبر کرے کیونکہ اچھا انجام پرہیزگاروں ہی کو نصیب ہوگا اور وہ سرخروئی سے ہم کنارہوں گے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ152

محدث فتویٰ

تبصرے