سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

سلے ہوئے کپڑے کی حد بندی اور احرام کے نیچے شلوار

  • 8987
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1909

سوال

سلے ہوئے کپڑے کی حد بندی اور احرام کے نیچے شلوار
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سلے ہوئے لباس کی حد بندی کیا ہے؟ کیا آج کل استعمال ہونے والی شلواریں احرام کے نیچے استعمال کی جا سکتی ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس شخص نے حج یا عمرہ کا احرام باندھا ہو اس کے لیے شلوار وغیرہ یا کوئی اور سلا ہوا کپڑا پہننا جائز نہیں ہے، نہ سارے بدن پر اور نہ اوپر کے حصہ پر بنیان وغیرہ اور نہ نچلے حصہ پر شلوار وغیرہ پہننا جائز ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ پوچھا گیا کہ محرم کیا لباس پہنے تو آپ نے فرمایا:

( يلبس القمص‘ ولا العمائم‘ ولا السراويلات‘ ولا البرانس‘ ولا الخفاف الا احد لا يجد نعلين فليلبس خفين‘ وليقطعهما اسفل من الكعبين) (صحيح البخاري‘ الحج‘ باب ما لا يلبس المحرم...الخ‘ ح: 1542 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب ما يباح للمحرم بحج او عمرة...الخ‘ ح: 1177)

"کہ وہ قمیصیں، عاممے، شلواریں، ٹوپیاں اور موزے نہ پہنے، اگر کسی کو جوتے نہ ملیں تو وہ موزے پہن لے اور انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے۔"

اس سے سائل کو یقینا معلوم ہو گیا ہو گا کہ وہ کون سا سلا ہوا لباس ہے، جو محرم کے لیے استعمال کرنا ممنوع ہے۔

مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ سلے ہوئے لباس سے مراد وہ لباس ہے جو سارے بدن کی پیمائش کے مطابق سلا یا بنا گیا ہو جیسے کہ قمیص یا اوپر کے نصف حصہ کے لیے بنایاگیا ہو جیسے بنیان وغیرہ یا نچلے حصہ کے لیے مثلا شلوار وغیرہ اور اس کا بھی وہی حکم ہے جو صرف ہاتھ کے لیے بنایا گیا ہو مثلا دستانے یا پاؤں کے لیے بنایا گیا ہو مثلا موزے۔ ہاں البتہ جوتے نہ ہونے کی صورت میں موزے استعمال کرنے کی اجازت ہے اورصحیح قول کے مطابق موزوں کا کاٹنا بھی لازم نہیں ہے کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:

(من لم يجد نعلين فليلبس خفين‘ ومن لم يجد ازارا فليلبس سراويل) (صحيح البخاري‘ جزاء الصيد‘ باب لبس الخفين...الخ‘ ح: 1841 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب ما يباح للمحوم بحج او عمرة...الخ‘ ح: 1179)

"جسے جوتے نہ ملیں، وہ موزے پہن لے اور جسے تہبند نہ ملے ، وہ شلوار پہن لے۔"

تو اس حدیث میں موزوں کے کاٹنے کا ذکر نہیں ہے جس سے معلوم ہوا کہ انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنا واجب نہیں ہے اور پہلی حدیث میں جو کاٹنے کا ذکر ہے تو وہ اس حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پیش نظر منسوخ ہے۔ یہ مسائل مرد کے حوالے سے ہیں، جہاں تک حج یا عمرے کا احرام باندھنے والی عورت کا تعلق ہے تو اس کے لیے شلوار اور موزے وغیرہ پہننا مطلقا جائز ہے لیکن اس کے لیے نقاب اور دستانوں کے استعمال کی ممانعت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے [1]جیسا کہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ میں مذکور ہے لیکن اجنبی مردوں کے سامنے اسے اپنے چہرے اور ہاتھوں کو بے نقاب اور ستانوں کے سوا کسی اور چیز مثلا دوپٹے وغیرہ سے چھپا لینا چاہیے۔


[1] صحیح بخاری، جزاء الصید، باب ما ینھی من الطیب للمحرم والمحرمۃ، حدیث: 1838

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی

محدث فتوی

تبصرے