السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا دو حجوں یا دو عمروں کا احرام باندھنا صحیح ہے؟ نیز تلبیہ، اس کی شروط، حکم اور وقت کے بارے میں رہنمائی فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ صحیح نہیں کہ ایک سال میں دو حجوں کا احرام باندھ لیا جائے کیونکہ ہر سال صرف ایک ہی حج جائز ہے۔ اسی طرح ایک ہی وقت میں دو عمروں کا احرام باندھنا بھی جائز نہیں۔ ایک حج دو آدمیوں کی طرف سے بھی نہیں ہو سکتا، اسی طرح ایک عمرے میں دو آدمیوں کی طرف سے بھی احرام نہیں باندھا جا سکتا کیونکہ دلائل سے ایسا ہرگز ثابت نہیں ہے اور تلبیہ دراصل اللہ تعالیٰ کی اس پکار کا جواب ہے:
﴿وَأَذِّن فِى النّاسِ بِالحَجِّ...٢٧﴾... سورة الحج
’’لوگوں میں حج کا اعلان کر دیجئے۔‘‘
اور اس کے الفاظ یہ ہیں:
(لبيك اللهم لبيك‘ لبيك لا شريك لك لبيك‘ ان الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك) (صحيح البخاري‘ الحج‘ باب التلبية‘ ح: 1549 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب التلبية وصفتها ووقتها‘ ح: 1184)
’’میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ بے شک تمام تر تعریف اور انعام (و احسان) تیرا ہی ہے اور بادشاہت بھی تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘
ان سے زیادہ الفاظ کہنا بھی جائز ہے مثلا آپ یہ کہہ سکتے ہیں:
(لبیک وسعدیک والخیر کله بیدیک والشر لیس الیک لبیک والرعبا الیک والعمل حقا حقا، تعبدا ورقا)
’’میں حاضر ہوں اور تیری فرمانبرداری کے لیے تیار ہوں اور ہر خیر و خوبی تیرے ہی ہاتھوں میں ہے اور برائی کی نسبت تیری طرف نہیں ہے۔ میں حاضر ہوں اور تیری جانب میری رغبت اور میرا عمل ہے۔ میں بندگی اور غلامی کا اظہار کرتے ہوئے سچ مچ حاضر ہوں۔‘‘
تلبیہ کا حکم یہ ہے کہ یہ سنت مؤکدہ ہے جب کہ بعض نے اسے رکن قرار دیا ہے کیونکہ یہ حج و عمرہ کا ظاہری شعار ہے۔ اس کا وقت نیت کے بعد احرام باندھنے کے فورا بعد ہے جب کہ احرام باندھنے والا ابھی اسی جگہ ہو جہاں اس نے نماز پڑھی ہو نیز ہر اس وقت تلبیہ کہنا چاہیے جب سواری پر سوار ہو، سواری سے اترے، اونچی جگہ پر چڑھے یا نشیبی جگہ پر اترے، کسی اور کو لبیک کہتے ہوئے سنے یا ساتھیوں سے ملے یا کسی ممنوع کام کا ارتکاب کر بیٹھے یا فرض نماز ادا کرے یا رات یا دن کا آغاز ہو اور اسی طرح تغیر احوال کے دیگر مواقع پر بھی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب