سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(88) عید میلاد النبی منانا

  • 893
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2043

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عید میلاد النبی منانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

پہلی بات تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا دن قطعی طور پر معلوم ہی نہیں ہے۔ بعض معاصر اہل علم کی تحقیق یہ ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت کی رات نو ربیع الاول ہے، بارہ ربیع الاول نہیں، لہٰذا بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی منانا تاریخی اعتبار سے بے اصل ہے۔

دوسری بات یہ کہ شرعی اعتبار سے عید میلاد منانا ہی بے اصل ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور عید میلاد مناتے اور اپنی امت کو بھی ایسا کرنے کا حکم فرماتے۔ اگر آپ نے یہ کام خود کیا ہوتا یا امت کو اس کے کرنے کا حکم دیا ہوتا تو یہ حکم ضرور محفوظ ہوتا، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحـفِظونَ ﴿٩... سورة الحجر

’’بے شک یہ (کتاب) نصیحت ہم نے ہی اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘

جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ اللہ کے دین میں عید میلاد منانے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ تو ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اسے ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے تقریب کے حصول کا ذریعہ قرار دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک تک رسائی کا ایک معین طریقہ مقرر فرما دیا ہے اور وہ معین طریقہ وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے، لہٰذا ہم بندے از خود کوئی ایسا طریقہ کیسے ایجاد کر سکتے ہیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ تک پہنچا دے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی ہے کہ اس کے دین میں ہم اپنی طرف سے کوئی ایسی چیز ایجاد کر دیں جس کا دین سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تکذیب بھی لازم آتی ہے:

﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى...﴿٣﴾... سورة المائدة

’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں۔‘‘

ہم عرض کریں گے کہ اگر عید میلاد منانے کا تعلق اس کامل دین سے ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے اسے موجودہونا چاہیے اور اگر اس دین کامل میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کا تعلق دین سے ہو کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا ہے۔‘‘

اگر کوئی شخص یہ گمان کرے کہ اس کا تعلق تو کمال دین سے ہے لیکن یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہوئی ہے تو اس کی یہ بات اس آیت کریمہ کی تکذیب پر مشتمل ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ عید میلاد منانے والے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم، آپ سے محبت کا اظہار اور عید میلاد کے ذریعے سے آپ سے دلی وابستگی کے جذبات کو بیدار کرنا چاہتے ہیں اور یہ تمام امور عبادات سے تعلق رکھتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت عبادت ہے بلکہ اس وقت تک ایمان مکمل ہی نہیں ہوتا جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اپنی جان، اپنی اولاد، اپنے والدین اور دیگر سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم بھی عبادت ہے، اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے لیے جذبات کو ابھارنے کا تعلق بھی دین سے ہے کیونکہ اس طرح آپ کی لائی ہوئی شریعت کی طرف میلان ہوتا ہے۔ یوں عید میلاد بھی تقرب الٰہی کے حصول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی وجہ سے عبادت ہے اور جب یہ عبادت ہے تو کسی کو ہرگز ایسی عبادت کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اللہ کے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کرے جس کا دین سے تعلق نہ ہو، یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم نہ دیا ہو جیسا کہ عید میلاد کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور جب اس کا دین اسلام میں کوئی تصور نہیں، تو معلوم ہوا کہ اس کا منانا بدعت اور حرام ہے۔ پھر ہم یہ بھی سنتے رہتے ہیں کہ عید میلاد کی محفلوں میں ایسے بڑے بڑے منکرات کا ارتکاب کیا جاتا ہے جنہیں شرعی، حسی یا عقلی طور پر جائزقرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان محفلوں میں گاگا کر ایسی نعتیں پڑھی جاتی ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بہت غلو سے کام لیا گیا ہے، حتیٰ کہ نعوذ باللہ… آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک سے بھی بڑا ثابت کیا جاتا ہے۔ عید میلاد منانے والوں کی اس بے وقوفی کے بارے میں ہم سنتے رہتے ہیں کہ ان محفلوں میں ولادت کا قصہ بیان کرنے والے جب یہ کہتے ہیں کہ پھر مصطفی کی ولادت ہوگئی تو اس لمحے سب لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس محفل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح بھی تشریف لے آتی ہے اور ہم اس کے احترام میں کھڑے ہوتے ہیں، حالانکہ یہ بے وقوفی کی بات ہے اور پھر یہ ادب نہیں ہے کہ اس لمحے سب لوگ کھڑے ہوں، آپ تو اپنے لیے لوگوں کے کھڑے ہونے کو سخت ناپسند فرمایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہیں تمام لوگوں کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت تھی اور وہ ہم سے کہیں بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم بجا لانے والے تھے، ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کھڑے ہونے کا معمول نہ تھا کیونکہ انہیں یہ معلوم تھا کہ آپ اسے ناپسند فرماتے ہیں۔(جامع الترمذي، الادب، باب ماجاء فی کراہیۃ قیام الرجل للرجل، حدیث: ۲۷۵۵، ۲۷۵۴)

اگر آپ اپنی حیات طیبہ میں اسے ناپسند فرماتے تھے تو آپ کی وفات کے بعد ان محفلوں میں کھڑا ہونا کسی صورت میں پسندیدہ ہوسکتا ہے؟

عید میلاد منانے کی اس بدعت کا رواج پہلی تین افضل صدیوں کے بعد شروع ہوا ہے اوراگردیکھاجائے تو بلاشبہ ان محفلوں میں اس طرح کے منکر امور کا ارتکاب کیا جاتا ہے جس سے دین میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ ان محفلوں میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط بھی ہوتا ہے اور دیگر کئی غلط کاموں کا ارتکاب بھی کیا جاتا ہے، لہٰذا انہیں قطعاً جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ163

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ