السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فقہی کونسل نے مکہ مکرمہ میں منعقد ہونے والے اجلاس میں اس موضوع کا جائزہ لیا کہ جدہ سے احرام باندھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ نیز فضائی اور بحری راستے سے حج اور عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ آنے والے بہت سے لوگ ان مواقیت سے جہالت کی وجہ سے گزر جاتے ہیں جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعین کرتے ہوئے یہاں رہنے والوں اور حج و عمرہ کی غرض سے یہاں سے گزرنے والوں کے لیے واجب قرار دیا ہے کہ وہ احرام کے بغیر یہاں سے نہ گزریں۔ ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس موضوع کے مطالعہ اور نصوص شرعیہ کے جائزہ کے بعد کونسل نے حسب ذیل قرار داد پاس کی:
اولا: وہ مواقیت جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا اور جن کے رہنے والوں یا وہاں سے حج اور عمرہ کے لیے گزرنے والوں کے لیے وہاں سے احرام باندھنا واجب قرار دیا وہ یہ ہیں (1) ذوالحلیفہ، یہ اہل مدینہ اور یہاں سے گزرنے والے دیگر لوگوں کے لیے ہے۔ اسے آج کل ابیار علی کہا جاتا ہے۔ (2) جحفہ، یہ اہل شام و مصر اور یہاں سے گزرنے والے دیگر لوگوں کے لیے ہے۔ اسے آج کل رابغ کہا جاتا ہے۔ (3) قرن المنازل، یہ اہل نجد اور اس راستے سے گزرنے والے دیگر لوگوں کے لیے ہے، اسے آج کل وادی محرم کہا جاتا ہے نیز اسے "السیل" بھی کہا جاتا ہے۔ (4) ذات عرق، یہ اہل عراق و خراسان اور اس راستہ سے گزرنے والے دیگر لوگوں کے لیے ہے۔ اسے آج کل ضربیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور (5) یلملم یہ یمن اور اس راستہ سے گزرنے والے دیگر لوگوں کے لیے ہے۔
کونسل نے یہ واجب قرار دیا ہے کہ جب بھی فضائی یا بحری راستہ سے جانے والے ان مواقیت خمسہ میں سے کسی ایک قریب ترین میقات سے گزریں تو وہ احرام باندھ لیں۔ اگر صورتحال واضح نہ ہو اور کوئی ایسا آدمی بھی ہمراہ نہ ہو جو میقات کے بارے میں رہنمائی کر سکے تو پھر واجب یہ ہے کہ وہ احتیاطا میقات سے اس قدر پہلے احرام باندھ لیں کہ ظن غالب یہ ہو کہ ابھی وہ میقات کے برابر نہیں پہنچے کیونکہ احرام میقات سے پہلے بھی جائز مع الکراہت ہے لیکن جب مقصود یہ احتیاط ہو کہ احرام کے بغیر میقات سے تجاوز نہ ہو تو پھر کراہت زائل ہو جائے گی کیونکہ واجب ادا کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے، چنانچہ مذاہب اربعہ کے اہل علم کا یہی قول ہے اور انہوں نے اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ سے استدلال کیا ہے۔ ان کا استدلال امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی اس ارشاد سے بھی ہے کہ جب اہل عراق نے آپ کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ ہمارا میقات قرن ہمارے راستے سے دور ہٹا ہوا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ راستہ میں یہ دیکھ لو کہ اس کے برابر کون سی جگہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر یہ واجب قرار دیا ہے کہ وہ اس سے جہاں تک ہو سکے ڈریں اور جو شخص اصل میقات کے پاس سے نہ گزرے تو مقدور بھر اس کی استطاعت میں یہی ہے کہ وہ اس جگہ سے احرام باندھے لے جو میقات کے برابر ہو، لہذا فضائی یا بحری راستے سے حج اور عمرہ کے لیے آنے والوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ احرامکو جدہ تک مؤخر کریں کیونکہ جدہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کردہ میقات نہیں ہے۔ اسی طرح جس شخص کے پاس احرام کی چادریں نہ ہوں تو اس کے لیے بھی جدہ تک احرام کو مؤخر کرنا جائز نہیں بلکہ اس کے لیے بھی واجب یہ ہے کہ وہ شلوار ہی میں احرام باندھ لے کیونکہ صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(من لم يجد نعلين فليلبس خفين‘ ومن لم يجد ازارا فليلبس سراويل) (صحيح البخاري‘ جزاء الصيد‘ باب لبس الخفين...الخ‘ ح: 1841 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب ما يباح للمحوم بحج او عمرة...الخ‘ ح: 1179)
’’جس کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ موزے پہن لے، جن کے پاس چادر نہ ہو تو وہ شلوار پہن لے۔‘‘
اور سر کو ننگا رکھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ پوچھا گیا کہ محرم کیا پہنے؟ تو آپ نے فرمایا:
( يلبس القمص‘ ولا العمائم‘ ولا السراويلات‘ ولا البرانس‘ ولا الخفاف الا احد لا يجد نعلين فليلبس خفين) (صحيح البخاري‘ الحج‘ باب ما لا يلبس المحرم...الخ‘ ح: 1542 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب ما يباح للمحرم بحج او عمرة...الخ‘ ح: 1177)
’’وہ قمیصیں، عمامے، شلواریں، ٹوپیاں اور موزے نہ پہنے، ہاں جس کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ موزے پہن لے۔‘‘
یہ جائز نہیں کہ محرم کے سر پر عمامہ یا ٹوپی یا کوئی ایسی چیز ہو جس کو سر پر پہنا جاتا ہو، ہاں البتہ اگر عمامہ ایسا ہو کہ اس سے جسم چھپ سکتا ہو تو اسے چادر کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن شلوار پہننا جائز نہیں لہذا شلوار کے بجائے چادر استعمال کی جائے۔ اگر آدمی نے شلوار نہ پہنی ہو اور اس کے پاس ایسا عمامہ بھی نہ ہو جس کو چادر کے طور پر استعمال کیا جائے تو اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ جب ہوائی جہاز، بحری جہاز یا کشتی میں میقات کے برابر پہنچے تو اپنی قمیص ہی میں، جسے اس نے پہنا ہوا ہے، محرم بن جائے اور اپنے سر کو ننگا کر لے۔ جدہ پہنچ کر چادر خرید لے، قمیص اتار دے اور بحالت احرام قمیص پہننے کی وجہ سے کفارہ ادا کرے۔ اس کا کفارہ یہ ہے کہ چھ مسکینوں کو نصف صاع بفی مسکین کے حساب سے کھجور، چاول یا کسی دوسری غذائی جنس سے جو شہر کی خوراک ہو، دے دے یا رین روزے رکھے یا ایک بکری ذبح کر دے، اسے اختیار ہے کہ ان تینوں باتوں میں سے جس پر چاہے عمل کرے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن عجرہ کو ان تین باتوں میں سے ایک کا اس وقت اختیار دے دیا تھا [1]جب حالت احرام میں بیماری کی وجہ سے انہیں سر کے بال منڈوانے کی آپ نے اجازت دی تھی۔
ثانیا: فقہی کونسل رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹریٹ سے یہ درخواست کرتی ہے کہ وہ ہوائی اور بحری کمپنیوں کو یہ خط لکھے کہ وہ میقات کے قریب آنے سے پہلے مسافروں کو خبردار کریں کہ میقات آنے والا ہے لہذا وہ احرام باندھنے کی تیاری کر لیں اور انہیں اس قدر پہلے بتا دیا جائے کہ ان کے لیے احرام باندھنا ممکن ہو۔
ثالثا: اسلامی فقہی کونسل کے رکن جناب شیخ مصطفیٰ احمد زرقاء اور جناب شیخ ابوبکر محمود جومی نے صرف جدہ کی طرف آنے والے (سعودی) باشندوں کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔
[1] صحیح بخاري، المحصر، باب قول اللہ تعالیٰ (فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا...الخ) حدیث: 1814 وصحیح مسلم، الحج، باب جواز حلق الراس للمحرم...الخ، حدیث: 1201
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب