السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کس کے لیے احرام کے بغیر میقات سے گزرنا جائز اور کس کے لیے ناجائز ہے؟ اور جو شخص احرام کے بغیر میقات سے گزر جائے تو اس کے لیے کیا لازم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ ، اہل شام کے لیے جحفہ، اہل نجد کے لیے قرن المنازل اور اہل یمن کے لیے یلملم کو میقات مقرر کرتے ہوئے فرمایا:
(هن لهن‘ ولمن اتي عليهن من غير اهلهن‘ ممن اراد الحج والعمرة‘ فمن كان دونهن فمن اهله‘ حتي اهل مكة يهلون منها) (صحيح البخاري‘ الحج‘ باب مهل اهل مكة للحج والعمرة‘ ح: 1524 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب مواقيت الحج‘ ح: 1181)
’’یہ ان علاقوں کے باشندوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے بھی جو یہاں کے باشندے تو نہ ہوں لیکن یہاں سے حج اور عمرہ کے ارادہ سے گزریں۔‘‘
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے ان میں سے کسی ایک میقات کے پاس سے گزرے تو اس کے لیے احرام لازم ہے اور اگر اس کا ارادہ و نیت حج اور عمرہ کا نہ ہو بلکہ وہ کسی عزیز سے ملنے یا کسی اور خاص کام کے لیے مکہ جا رہا ہو تو اس کے لیے احرام کے بغیر میقات سے گزرنا جائز ہے۔ اسی طرح ایندھن اور ڈاک لے جانے والوں اور گاڑیوں کے ڈرائیوروں وغیرہ کے لیے بھی یہاں سے بغیر احرام کے گزرنا جائز ہے لیکن اس شخص کے لیے ہرگز جائز نہیں جو حج یا عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ جا رہا ہو۔ حج اور عمرہ کے لیے جانے والا گر کوئی شخص احرام کے بغیر میقات سے گزر جائے تو اس کے لےی لازم ہے کہ وہ واپس آئے اور میقات سے احرام باندھے۔ اگر کوئی شخص ہوائی جہاز سے سفر کے ذریعے جدہ اترے تو وہ گاڑی پر سفر کر کے اہل نجد کے میقات پر چلا جائے اور وہاں سے احرام باندھ کر آئے اور اگر اس کا حج و عمرہ کا ارادہ ہو اور وہ جدہ سے احرام باندھ لے تو اس صورت میں احرام کے بغیر میقات سے گزرنے سے کفارہ کے طور پر دم لازم ہو گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب