السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو شخص حج یا عمرہ یا کسی اور غرض سے مکہ مکرمہ جا رہا ہو اور وہ احرام کے بغیر میقات سے گزر جائے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو شخص حج اور عمرہ کے بغیر اغرام کے میقات سے گزر جائے تو اس کے لیے واجب ہے کہ وہ واپس لوٹ کر میقات سے حج و عمرہ کا احرام باندھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
(يهل اهل امدينة من ذي الحليفة‘ واهل الشام من الضحفة‘ واهل نجد من قرن ويهل اهل اليمن من يلملم) (صحيح البخاري‘ الحج‘ باب ميقات اهل المدينة...الخ‘ ح: 1525 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب مواقيت الحج‘ ح: 1182)
’’اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے، اہل شام جحفہ سے، اہل نجد قرن سے اور اہل یمن یلملم سے احرام باندھیں۔‘‘
اسی طرح صحیح حدیث میں ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ، اہل شام کے لیے جحفہ، اہل نجد کے لیے قرن منازل اور اہل یمن کے لیے یلملم کا تعین کرتے ہوئے فرمایا:
(هن لهن‘ ولمن اتي عليهن من غير اهلهن‘ ممن اراد الحج والعمرة‘ فمن كان دونهن فمن اهله‘ حتي اهل مكة يهلون منها) (صحيح البخاري‘ الحج‘ باب مهل اهل مكة للحج والعمرة‘ ح: 1524 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب مواقيت الحج‘ ح: 1181)
’’یہ مواقیت ان علاقوں کے لوگوں کے لیے ہیں، نیز ان لوگوں کے لیے بھی جو ان کے باشندے تو نہ ہوں لیکن وہ حج اور عمرہ کے ارادہ سے یہاں سے گزریں۔‘‘
لہذا جس شخص کا حج یا عمرہ کا ارادہ ہو تو اس کے لیے یہ لازم ہے کہ اس میقات سے احرام باندھے جس سے وہ گزر رہا ہو۔ یعنی اگر وہ مدینے کے راستہ سے آ رہا ہے تو ذوالحلیفہ سے، شام یا مصر یا مغرب کے راستہ سے آ رہا ہے تو جحفہ سے جسے آج کل رابغ کہا جاتا ہے اور اگر یمن کے راستہ سے آ رہا ہے تو یلملم سے احرام باندھے اور اگر وہ نجد یا طائف کے راستہ سے آ رہا ہے تو وادی قرن سے جسے آج کل "سیل" یا بعض لوگ وادی محرم کے نام سے موسوم کرتے ہیں، حج یا عمرہ کا احرام باندھے طواف کرے، سعی کرے، بال کتروائے اور حلال ہو جائے اور پھر حج کے وقت میں حج کا احرام باندھے اور اگر حج کے مہینوں کے علاوہ دیگر مہینوں مثلا رمضان یا شعبان میں یہاں سے گزرے تو صرف عمرہ کا احرام باندھے۔ یہی حکم شریعت ہے۔
جو شخص مکہ مکرمہ میں حج و عمرہ کی نیت سے نہیں بلکہ کسی اور ارادے سے مثلا خرودوفروخت، رشتہ داروں یا دوست احباب کی ملاقات وغیرہ کے لیے آ رہا ہو تو صحیح قول کے مطابق اس کے لیے احرام ضروری نہیں بلکہ وہ بغیر احرام کے بھی مکہ میں داخل ہو سکتا ہے۔ علماء کا راجح قول یہی ہے لیکن افضل یہ ہے کہ وہ اس فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے عمرہ کا احرام باندھ لے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب