سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(60) مسئلہ تقدیرکے بارے میں راہِ اعتدال

  • 892
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3284

سوال

(60) مسئلہ تقدیرکے بارے میں راہِ اعتدال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امید ہے آپ مسئلہ تقدیر پر روشنی ڈالیں گے، کیا یہ بات درست ہے کہ اصل فعل تو تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے اور کیفیت کے بارے میں انسان کو اختیار دے دیا گیا ہے؟ اس کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگر کسی بندے کی تقدیر میں یہ لکھ دیا ہے کہ وہ مسجد بنائے گا تو وہ یقینی طور پر ضرور مسجد بنائے گا لیکن مسجد بنانے کی کیفیت کا اختیار اس کی عقل پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر گناہ کا کوئی کام کسی بندے کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے، تو وہ یقینی طور پر اسے کرے گا لیکن اس کے کرنے کی کیفیت کو اس کی عقل پر موقوف چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی تقدیر میں جس اچھے یا برے عمل کا کرنا لکھ دیا گیا ہے، اس کی کیفیت کے بارے میں اسے اختیار دے دیا گیا ہے، تو کیا یہ بات صحیح ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

تقدیر کا یہ مسئلہ زمانہ قدیم ہی سے انسانوں کے مابین ایک نزاعی مسئلہ چلا آرہا ہے اس میں لوگ تین قسموں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ ان میں سے دو قسم کے لوگ تو افراط و تفریط میں مبتلا ہیں اور ایک گروہ اعتدال پر قائم ہے۔

پہلی قسم:

 ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے عموم کو دیکھا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے بندے کے اختیار سے آنکھیں بند کر لیں ہیں اس بنیادپر ان کا کہنا ہے کہ انسان اپنے افعال کے سرانجام دینے کے لیے مجبور ہے اور اسے قطعاً کوئی اختیار حاصل نہیں، لہٰذا انسان کا تیز آندھی وغیرہ کی وجہ سے چھت سے گرنا بالکل اسی طرح ہے جیسے اپنے اختیار سے وہ سیڑھی سے اترتا ہے۔

دوسری قسم:

 ان لوگوں کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بندے کو اپنے افعال کے کرنے یا نہ کرنے میں مکمل اختیار حاصل ہے۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے اپنی آنکھوں کو بند کر لیا ہے اس بناء پر وہ یہ کہتے ہیں کہ بندہ اپنے افعال کو سرانجام دینے میں خود مختار ہے، اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا اس سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔

راہ اعتدال پر قائم لوگوں نے دونوں اسباب کی بنظربصارت چھان بین کی، اسی بناپر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے عموم کو بھی دیکھا اور بندے کے اختیار پر نظر دوڑائی اور کہا کہ بندے کا فعل اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور بندے کے اختیار سے وجود میں آتا ہے۔ لہٰذا انسان کے چھت سے تیز آندھی وغیرہ کی وجہ سے گرنے اور اپنے اختیار سے سیڑھی سے اترنے میں نمایاں فرق معروف اور نمایاں ہے۔ انسان کا پہلا فعل اس کے اپنے اختیار کے بغیر ہے، جبکہ اس کا دوسرا فعل اس کے اپنے اختیار سے ہے اور یہ دونوں فعل اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مملکت میں کوئی ایسے کام کی انجام دہی کا وجود نہیں جسے وہ نہ چاہے، لیکن بندہ اسی فعل کا مکلف ہے جو اس کے اختیار سے واقع ہو ، لہٰذا جن اوامر یا نواہی کا اسے مکلف قرار دیا گیا ہے وہ یہ کہتے ہوئے ان کی مخالفت نہیں کر سکتا کہ میری تقدیر میں یہی لکھا ہوا تھا کیونکہ احکام الٰہی کی مخالفت کا اقدام تو وہ اس وقت کرسکتا ہے جب کہ اسے یہ معلوم ہی نہ ہوکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں کیا لکھا ہے اور احکام الٰہی کی مخالفت کے سلسلے میں اس کا یہ اختیاری اقدام ہی اس کی دنیوی یا اخروی سزا کا سبب بنتا ہے۔ اسی لیے اگر کوئی جابر اسے مخالفت پر مجبور کرے تو اس پر حکم مخالفت ثابت نہیں ہوتا اور عذر کے ثابت ہونے کی وجہ سے اس صورت میں اسے سزا بھی نہیں دی جاتی۔

انسان کو جب یہ معلوم ہے کہ آگ سے بھاگ کر ایسی جگہ چلے جانے کا تعلق جہاں وہ اس سے محفوظ رہے اس کے اختیار سے ہے، اسی طرح خوب صورت، کشادہ اور پاکیزہ مکان میں سکونت اختیار کرنا بھی اس کے اپنے اختیار کے بموجب ہے، حالانکہ آگ سے بھاگنا اور اچھے مکان میں سکونت اختیار کرنا، دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر سے واقع ہوتے ہیں آگ کی زد میں آئے ہوئے شخص کا اپنی جگہ برقرار رہنا تاکہ آگ اسے اپنی لپیٹ میں لے لے اور بندے کا اچھے مکان میں رہائش اختیار کرنے میں دیر کر دنے کو بندے کی خود اپنی طرف سے کوتاہی اور ایسے موقع کو ضائع کر دینا  شمار کیا جائے گا جس پر وہ ملامت کا مستحق قراردیا جائے گا، جب یہ بات واضح ہے تو اس بات سے ایسا شخص کیوں بے بہرہ ہے کہ آتش جہنم سے نجات دینے والے اور دخول جنت کو واجب قرار دینے والے اسباب کو ترک کر دینا بھی اس کی طرف سے ایسی ہی کوتاہی ہے جو مستحق ملامت ہے؟

یہ مثال کہ اللہ تعالیٰ نے جب کسی بندے کی تقدیر میں لکھ دیا ہو کہ وہ مسجد بنائے گا، تو وہ یہ مسجد تو ضرور بنائے گا لیکن اس کے بنانے کی کیفیت کے بارے میں اختیار اس کی عقل کو دے دیا گیا ہے، ہمارے خیال میں یہ مثال سرے سے درست ہی نہیں۔ کیونکہ اس مثال سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد بنانے کی کیفیت کا مستقل اختیار میں عقل کوپوراپورا دخل حاصل ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں اسی کے ساتھ مسجد بنانے کی مستقل سوچ کا تعلق تقدیر سے ہے جہاں تک عقل کے عمل دخل کی بنات ہے توعقل کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسجد بنانے کی اصل سوچ میں بھی بندے کے اختیار کا عمل دخل ہے کیونکہ اسے اس کام پر مجبور نہیں کیا گیا، جس طرح کہ اسے اپنے خاص گھر کے بنانے یا اس میں ترمیم کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس سوچ کو بھی تو اللہ تعالیٰ ہی نے بندے کی تقدیر میں لکھا ہے الا یہ کہ بندے کو اس کا شعور نہیں ۔ کیونکہ جب تک کوئی چیز وقوع پذیر نہ ہو جائے بندے کو اس کے بارے میں یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں اسے لکھ رکھا ہے کیونکہ تقدیر تو قدرت کا ایک ایسا مخفی راز ہے جس کے بارے میں علم اسی وقت یقینی ہوپاتا ہے جب اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے یا وقوع حسی کی صورت میں اس کے بارے میں مطلع فرما دے۔ اسی طرح کسی چیز کو بنانے کی کیفیت بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں لکھی ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء کی تقدیر اجمالی طور پر بھی لکھی ہے اور تفصیلی طور پر بھی اور یہ ممکن ہی نہیں کہ بندہ کسی ایسی چیز کو اختیار کرے جو اللہ تعالیٰ کے ارادہ تقدیر کے خلاف ہو، بلکہ بات یہ ہے کہ بندہ جب کسی چیز کو اختیار کرتا اور اسے سرانجام دیتا ہے تو پھر اسے یقینی طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر کے مطابق ہے، چنانچہ بندہ ان حسی اور ظاہری اسباب کے مطابق مختار ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اس فعل کے وقوع کے اسباب کے طور پر مقدر فرما رکھا ہے اور بندہ جب اس فعل کو سرانجام دیتا ہے تو اسے اس بات کا شعور بھی نہیں ہوتا کہ کس نے اسے اس کام پر مجبور کیا ہے، لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اسباب کے مطابق اس فعل کو سرانجام دے ڈالتا ہے تو ہمیں یقینی طور پر یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے اجمال اور تفصیل دونوں میں سے دونوں پہلوؤںکو اس کے مقدر میں لکھ رکھا ہے۔

انسان کے گناہ کے بارے میں تم نے جو یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جس گناہ کو اس کے مقدر میں لکھ رکھا ہے وہ یقینی طور پر اسے کرے گا، لیکن اس کے کرنے کی کیفیت اور اس کے لیے سعی وکاوش کو اس کی عقل پر چھوڑ دیا گیا ہے، تو اس مثال کے بارے میں بھی ہم وہی کہیں گے جو ہم نے مسجد بنانے کی مثال کے بارے میں کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فعل معصیت کو اس کے مقدر میں لکھ دینا اس کے اختیار کے منافی نہیں، کیونکہ اس فعل کو سرانجام دیتے وقت اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں کیا لکھ رکھا ہے؟ لہٰذا بندے جب اپنے اختیار سے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے درانحالیکہ اسے اس بات کا شعور بھی نہیں ہوتا کہ کوئی اسے اس پر مجبور کر رہا ہے، لیکن جب وہ اس فعل کا ارتکاب کرلیتاہے اور اسے سرانجام دے ڈالتا ہے تو اس وقت ہمیں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اس فعل کو اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں لکھ رکھا تھا، اس طرح گناہ کے کام کا ارتکاب کرنا اور اس کے لیے سعی وکاوش کرنا بھی بندے کے اختیار میں ہے اور یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ تقدیر کے مطابق ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نے تمام اشیاء کو اجمال و تفصیل کے ساتھ مقدر فرما رکھا ہے۔ اسی نے ان اشیاء تک پہنچانے والے تمام اسباب کو بھی مقدر فرما یاہے۔ اس کے افعال میں سے کوئی چیز بھی ان اسباب سے دور رہ سکتی ہے نہ بندے کے اختیاری یا اضطرابی افعال ہی سے شذوذ کی راہ اختیارکر سکتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿أَلَم تَعلَم أَنَّ اللَّهَ يَعلَمُ ما فِى السَّماءِ وَالأَرضِ إِنَّ ذلِكَ فى كِتـبٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسيرٌ ﴿٧٠﴾... سورة الحج

’’کیا تم نہیں جانتے کہ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے، اللہ اس کو جانتا ہے، یہ (سب کچھ) کتاب میں (لکھا ہوا) ہے بے شک یہ سب کچھ اللہ پر آسان ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿ وَكَذلِكَ جَعَلنا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا شَيـطينَ الإِنسِ وَالجِنِّ يوحى بَعضُهُم إِلى بَعضٍ زُخرُفَ القَولِ غُرورًا وَلَو شاءَ رَبُّكَ ما فَعَلوهُ فَذَرهُم وَما يَفتَرونَ ﴿١١٢ ... سورة الأنعام

’’اور اسی طرح ہم نے شیطان (صفت) انسانوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا تھا، وہ دھوکا دینے کے لیے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی باتیں ڈالتے رہتے تھے اور (اے نبی!) اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے، لہٰذا آپ ان کو اور جو کچھ یہ افترا کرتے ہیں اسے چھوڑ دیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَكَذلِكَ زَيَّنَ لِكَثيرٍ مِنَ المُشرِكينَ قَتلَ أَولـدِهِم شُرَكاؤُهُم لِيُردوهُم وَلِيَلبِسوا عَلَيهِم دينَهُم وَلَو شاءَ اللَّهُ ما فَعَلوهُ فَذَرهُم وَما يَفتَرونَ ﴿١٣٧﴾... سورة الأنعام

’’اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے دیوتاؤں نے ان کی اولاد کا قتل پسندیدہ بنا رکھا ہے تاکہ وہ انہیں ہلاکت میں ڈال دیں اور ان کے لیے ان کا دین مشکوک بنا دیں اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے، لہٰذا آپ ان کو اور جو کچھ وہ جھوٹ باندھتے ہیں اسے چھوڑ دیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَلَو شاءَ اللَّهُ مَا اقتَتَلَ الَّذينَ مِن بَعدِهِم مِن بَعدِ ما جاءَتهُمُ البَيِّنـتُ وَلـكِنِ اختَلَفوا فَمِنهُم مَن ءامَنَ وَمِنهُم مَن كَفَرَ وَلَو شاءَ اللَّهُ مَا اقتَتَلوا وَلـكِنَّ اللَّهَ يَفعَلُ ما يُريدُ ﴿٢٥٣﴾... سورة البقرة

’’اور اگر اللہ چاہتا تو ان سے پچھلے لوگ اپنے پاس کھلی نشانیاں آنے کے بعد آپس میں نہ لڑتے لیکن انہوں نے اختلاف کیا، تو ان میں سے بعض تو ایمان لے آئے اور بعض کافر ہی رہے اور اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ باہم جنگ وقتال نہ کرتے، لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘

بندے کو چاہیے کہ وہ ان امور کے بارے میں، جو موجب تشویش ہوں اور ان کے ذریعہ تقدیر کے ساتھ شریعت کی مخالفت کا احتمال ہو نہ تو خود اپنے دل میں کچھ سوچے اور نہ کسی کے ساتھ اس بارے میں  بحث وتکرار کرے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کا یہ انداز نہ تھا، حالانکہ وہ حقائق کو معلوم کرنے کے لوگوں  میں سب سے زیادہ حریص تھے حالانکہ وہ تشنگی کو تسکین بخشنے اور غم و فکر کو دور کرنے والے چشمے سے سب سے قریب تر تھے۔ صحیح بخاری میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ کُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ الْجَنَّةِ وَمَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ فَقَلنا يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَفَلَا نَتَّکِل؟ (وفی رواية أفلا نتکل علی کتابنا وندع العمل) قال:لاَ اِعْمَلُوا فَکُلٌّ مُيَسَّر»(صحیح البخاری، کتاب القدر، باب وکان أمرالله قدرامقدورا،ومسلم،کتاب القدر،باب کیفیة خلق الآدمی فی بطن أمه(۲۶۴۷)

’’تم میں سے ہر ایک کا جنت یا جہنم میں ٹھکانا لکھ دیا گیا ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم بھروسا نہ کرکے نہ بیٹھ رہیں؟ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ’’ کیا ہم اپنے لکھے ہوئے پر بھروسا نہ کر لیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، تم عمل کرو، ہر ایک کے لیے (اس کے عمل کو) آسان کر دیا گیا ہے۔‘‘

اور ایک دوسری روایت میں ہے:

«اِعْمَلُوا فَکُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ أَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ أهْلِ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُ لِعَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ وَأَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ الشِّقَاءِ فَيُيَسَّرُ بِعَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ»(صحیح البخاری، التفسیر، باب: ﴿فسنیسره للعسری﴾ ح: ۴۹۴۹ وصحیح مسلم، القدر، باب کییفة خلق الآدمی فی بطن امه ح: ۲۶۴۷ ومسند احمد: ۱۲۹/۱)

’’تم عمل کرو، ہر ایک کو اس عمل کی توفیق ملتی رہتی ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے، چنانچہ جو شخص اہل سعادت میں سے ہو، اس کے لیے سعادت کے عمل کو آسان کر دیا جاتا ہے اور جو شخص اہل شقاوت میں سے ہو، اس کے لیے شقاوت و بدبختی کے عمل کو آسان کر دیا جاتا ہے۔‘‘

پھر آپ نے ان آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی:

﴿ فَأَمّا مَن أَعطى وَاتَّقى ﴿٥ وَصَدَّقَ بِالحُسنى ﴿٦ فَسَنُيَسِّرُهُ لِليُسرى ﴿٧ وَأَمّا مَن بَخِلَ وَاستَغنى ﴿٨ وَكَذَّبَ بِالحُسنى ﴿٩ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلعُسرى ﴿١٠﴾... سورة الليل

’’تو جس نے (اللہ کے راستے میں مال) دیا اور پرہیزگاری کی اور نیک بات کو سچ جانا، یقینا ہم اسے آسان طریقے (نیکی) کی توفیق دیں گے اور جس نے بخل کیا اور بے پروا بنا رہا اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا، تو یقینا ہم اسے مشکل راہ (بدی) کے لیے سہولت دیں گے۔‘‘

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب تقدیر پر بھروسا کرتے ہوئے عمل ترک کر دینے سے منع فرما یاہے الایہ کہ اس بات کے معلوم کرنے کا کوئی راستہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب تقدیر میں اس کے لئے کیا لکھ رکھا ہے ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے بندوں کو اپنی استطاعت اور مقدور کے مطابق عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور آپ نے اس آیت کریمہ سے استدلال فرمایا جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص بھی نیک عمل کرے اور ایمان لے آئے تو اسے آسان طریقے پر عمل درآمدکی توفیق دے دی جاتی ہے۔ یہی نافع اور ثمر بارودا ء ہے، اسی سے انسان عافیت وسعادت حاصل کرسکتا ہے بندے کو چاہئے کہ وہ ایمان پر مبنی عمل صالح کے لیے سرگرم عمل ہو جائے اور جب اسے دنیا و آخرت کی بھلائیوں کی آسانی کی توفیق مل جائے تو وہ اس پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے، آسان طریقے کی طرف ہماری راہنمائی فرمائے، مشکل اور سخت طریقے سے بچائے اور دنیا وآخرت میں ہمیں معافی کا پروانہ عطاء فرما دے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ115

محدث فتویٰ

تبصرے