سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(364) کیا میں والدی کی طرف سے خود حج کروں یا۔۔۔؟

  • 8911
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-20
  • مشاہدات : 1311

سوال

(364) کیا میں والدی کی طرف سے خود حج کروں یا۔۔۔؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری والدہ فوت ہو گئیں جبکہ میں چھوٹا ہی تھا، لہذا میں نے ایک قابل اعتماد شخص کو اجرت پر حج کے لیے بھیجا۔ اسی طرح میرے والد کا بھی انتقال ہو چکا ہے اور ان میں سے میں کسی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ میں نے بعض رشتہ داروں سے یہ سنا ہے کہ میرے والد نے حج کیا تھا۔ کیا کسی کو والدہ کی طرف سے حج کے لیے اجرت پر بھیجا جائز ہے یا ضروری ہے کہ میں خود ان کی طرف سے حج کروں؟ کیا میرے لیے اپنے والد کی طرف سے حج کرنا بھی لازم ہے جبکہ میں نے سنا ہے کہ انہوں نے حج کیا تھا؟ امید ہے رہنمائی فرما کر شکریہ کا موقع بخشیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر صورت حال اسی طرح ہے جس طرح سوال میں مذکور ہے تو آپ کے لیے اپنی والدہ کی طرف سے حج کرنا اگر آپ اپنے والدین کی طرف سے خود حج کریں اور شرعی طریقے سے حج کی تکمیل کے لیے کوشش کریں تو یہ افضل ہے اور اگر آپ دین دار اور امانت دار لوگوں میں سے کسی کو اجرت پر بھیج دیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن افضل یہ ہے کہ آپ خود اپنے والدین کی طرف سے حج اور عمرہ کریں اور اگر کسی کو نائب بنا کر بھیجیں تو آپ اسے حکم دیں کہ وہ ان کی طرف سے حج اور عمرہ کرے۔ آپ کا یہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک ہو گا۔اس سلسلہ میں اپنا کچھ مال خرچ کرنا بھی جائز ہے بلکہ والدہ کے ساتھ نیکی اور احسان کے پیش نظر آپ کے لیے ان کی طرف سے حج کرنے کی تاکید مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ انہیں استطاعت نہیں ہے اور اس مذکورہ حالت میں حج میں نیابت جائز ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب المناسك: ج 2  صفحہ 266

محدث فتوی

تبصرے