السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عقیدہ اور امور دین وغیرہ کے بارے میں اہل سنت والجماعت کے کیا اصول وضوابط ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جہاں تک عقائد اور دیگر امور دین وغیرہ کے بارے میں اہل سنت والجماعت کے عقیدے کا اساسی اصول وقاعدہ کا معاملہ ہے تو وہ یہ ہے کہ کتاب اللہ، سنت رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) اور خلفائے راشدین کے طریقے اور راستے کو مضبوطی سے تھام لیا جائے، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى يُحبِبكُمُ اللَّهُ...﴿٣١﴾... سورة آل عمران
’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿مَن يُطِعِ الرَّسولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ وَمَن تَوَلّى فَما أَرسَلنـكَ عَلَيهِم حَفيظًا﴿٨٠﴾... سورة النساء
’’جو شخص رسول کی فرمانبرداری کرے گا تو بے شک اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی اور جو نافرمانی کرے تو اے پیغمبر! آپ کو ہم نے ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَما ءاتىكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىكُم عَنهُ فَانتَهوا...﴿٧﴾... سورة الحشر
’’اور جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔‘‘
یہ حکم اگرچہ مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں آیا ہے لیکن امور شرعیہ کے بارے میں بدرجہ أولیٰ اس کا اطلاق ہوگا ، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کرتے تھے:
«اَمَّا بَعْدُ: فَاِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ کِتَابُ اللّٰهِ وَخَيْرَ الْهَدْیِ َهَدْیُ مُحَمَّدٍ((صلی اللّٰہ علیہ وسلم)وَشَرَّالْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ» (صحيح مسلم، الجمعة ‘ باب تخفيف الصلاة والخطبة ‘ ح:867)
’’حمدوثنا کے بعد! بے شک بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کا طریقہ ہے اور بدترین امور نئے پیدا کردہ امور ہیں، یعنی بدعات ہیں اور (دین میں ایجاد کی گئی) ہر بدعت، یعنی نئی بات گمراہی ہے۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:
«عَلَيْکُمْ بِسُنَّتِی، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّينَ تَمَسَّکُوْا بِهَا وَعَضُّوْا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَاِيَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ، فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ» (سنن ابی داود، السنة، باب فی لزوم السنة، ح:4607)
’’تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے مضبوطی سے تھام لو اور دانتوں کے ذریعہ سختی سے پکڑ لو اور (دین میں) نئے نئے کاموں سے کنارہ کشی اختیارکرو کیونکہ (دین میں ایجاد کردہ) ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
اس مسئلے سے متعلق کتاب وسنت میں اور بھی بہت سے نصوص واردہوئے ہیں، چنانچہ اہل سنت والجماعت کا طریقہ اور دستور کتاب اللہ، سنت رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) اور آپ کے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو مکمل طور پر اختیار کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ پر عمل کرتے ہوئے دین کو قائم رکھتے ہیں اور اس میں تفرقہ(یہ امور دین کو نہایت شدت کے ساتھ تھام لینے کے بارے میں ایک مثال ہے۔ (مترجم)) نہیں ڈالتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿شَرَعَ لَكُم مِنَ الدّينِ ما وَصّى بِهِ نوحًا وَالَّذى أَوحَينا إِلَيكَ وَما وَصَّينا بِهِ إِبرهيمَ وَموسى وَعيسى أَن أَقيمُوا الدّينَ وَلا تَتَفَرَّقوا فيهِ...﴿١٣﴾... سورة الشورىٰ
’’اس نے تمہارے دین کا وہی راستہ مقرر کیا جس کے اختیار کرنے کا نوح کو حکم دیا تھا اورجس کی (اے محمد!) ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا (وہ یہ) کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔‘‘
اہل سنت میں اگرچہ اجتہادی مسائل میں اختلاف ہے تو اس اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے اور یہ اختلاف دلوں کے اختلاف کا سبب نہیں بنتا۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت اجتہادی مسائل میں اختلاف کے باوجود باہم دگرالفت ومحبت کے رشتوں میں منسلک ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب