سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(356) تندرست آدمی کی طرف سے حج بدل

  • 8903
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1294

سوال

(356) تندرست آدمی کی طرف سے حج بدل

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک صحیح سالم (تندرست) آدمی یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی طرف سے کسی کو حج پر بھیج دے تو کیا اس کا حج صحیح ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص خود حج کرنے کی قدرت رکھتا ہو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ فرض حج کے لیے کسی اور کو اپنی طرف سے نائب بنا کت بھیجے۔ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ "المغنی" میں فرماتے ہیں کہ اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص خود حج کرنے کی قدرت رکھتا ہو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی کو نائب بنا کر بھیج دے۔ اسی طرح صحیح قول کے مطابق نفل حج کی نیابت بھی جائز نہیں ہے کیونکہ حج عبادت ہے اور عبادت میں اصل یہ ہے کہ یہ توقیفی ہیں اور ہمارے علم کے مطابق شریعت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ تندرست آدمی بھی اپنی طرف سے کسی کو حج پر بھیج سکتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:

(من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد) (صحيح البخاري‘ الصلح‘ باب اذا اصطلحوا علي صلح جور...الخ‘ ح: 2697)

’’جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات پیدا کرے جو اس میں سے نہ ہو تو وہ (بات) مردود ہے۔‘‘

ایک اور روایت میں الفاظ یہ ہیں:

(من عمل عملا ليس عليه امرنا فهو رد) (صحيح مسلم‘ الاقضية‘ باب نقض الاحكام الباطلة ...الخ‘ ح: 1718)

’’جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا حکم نہ ہو تو وہ (عمل) مردود ہے۔‘‘

اسی طرح سماحۃ الشیخ عبدالعزیزی بن باز رحمہ اللہ سے یہ سوال پوچھا گیا: ’’جو شخص پہلے فریضہ حج ادا کر چکا ہو تو کیا وہ نفل حج کے لیے کسی کو اپنا نائب مقرر کر سکتا ہے، جبکہ وہ خود بھی حج کر سکتا ہو؟ تو سماحۃ الشیخ نے اس سوال کا یہ جواب دیا:

’’اس مسئلہ میں اگرچہ اہل علم میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن زیادہ نمایاں بات یہ ہے کہ یہ جائز نہیں کیونکہ حج بدل کی اجازت کا تعلق میت اور اس بے حد بوڑھے انسان سے ہے جو خود حج کرنے سے عاجز و قاصر ہو اور اس دائمی مریض کا بھی یہی حکم ہے جس کے صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو اور عبادت کے سلسلہ میں اصل عدم نیابت ہے، لہذا واجب ہے کہ اس اصول کو باقی رہنے دیا جائے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب المناسك: ج 2  صفحہ 261

محدث فتویٰ

تبصرے