سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(343) حج کی استطاعت کا معنی

  • 8890
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1709

سوال

(343) حج کی استطاعت کا معنی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حج کے حوالے سے استطاعت کے کیا معنی ہیں؟ کیا مکہ مکرمہ کی طرف جاتے ہوئے زیادہ ثواب ملتا ہے یا واپسی پر؟ اور کیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا اجروثواب مکہ سے اپنے وطن واپسی کے وقت زیادہ ہو گا یا اس وقت کہ جب وہاں اس نے پہلا نیک عمل کیا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حج کے حوالہ سے استطاعت کے معنی یہ ہیں کہ آدمی صحیح البدن ہو۔ آدمی کے پاس ہوائی جہاز یا گاڑی یا ایسی سواری ہو جو بیت اللہ شریف تک پہنچا دے یا حسب حال اس کے پاس سواری وغیرہ کا کرایہ موجود ہو۔ آنے جانے کے لیے زادِ راہ بھی موجود ہو اور حج سے واپسی تک اہل و عیال کے لیے بھی نفقہ و خرچہ وغیرہ موجود ہو اور اگر عورت حج یا عمرہ کے لیے جا رہی ہو تو اس کے لیے شوہر یا کسی اور محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔

جہاں تک حج کے ثواب کا تعلق ہے تو وہ اسے اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کے مطابق ملے گا اور اس کے مطابق کہ اس نے مناسک کو کس طرح ادا کیا ہے اور ان امور سے کس قدر اجتناب کیا ہے جو کمال حج کے منافی ہیں۔ نیز اس نے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں مال کتنا خرچ کیا ہے؟ مشقت کس قدر برداشت کی ہے؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ واپد لوٹ آئے یا وہاں مقیم ہو جائے یا حج مکمل کرنے سے پہلے یا بعد میں وفات پا جائے کہ اللہ تعالیٰ اس کے حال کو خوب جانتا اور اسے جزاء سے نوازتا ہے۔

ہر مکلف شخص کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عمل کو خوب اچھی طرح کرے، ظاہری و باطنی ہر حال میں اسلامی شریعت کی پابندی کرے اور عبادت اس طرح کرے گویا اپنے رب تعالیٰ کا دیدار کر رہا ہے اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو تو پھر وہ اس حقیقت کو یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا اور اس کے تمام حالات سےباخبر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حوالے سے کریدنہ کرے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں پر بے حد رحم فرمانے والا ہے، وہ نیکیوں کا کئی گنا زیادہ اجروثواب عطا فرماتا اور گناہ معاف فرما دیتا ہے اور تمہارا رب کسی پر کبھی ظلم نہیں فرماتا۔ تم اپنے نفس کی حفاظت کرو اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ کو اللہ کے سپرد کر دو جو حکیم و عادل اور رؤف رحیم ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب المناسک : ج 2  صفحہ 256

محدث فتویٰ

تبصرے