سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(342) بے نماز کی طرف سے حج نہ کیا جائے

  • 8889
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1009

سوال

(342) بے نماز کی طرف سے حج نہ کیا جائے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا ایک قریبی رشتہ دار ماہ رمضان میں فوت ہو گیا ہے۔ وفات سے پہلے وہ نماز اور زکوٰۃ کے ادا کرنے میں کوتاہی کرتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں کبھی حج نہیں کیا تھا تو کیا میرے لیے اس کی طرف سے حج کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر یہ شخص کبھی نماز پڑھتا اور کبھی چھوڑ دیتا تھا تو اس ک طرف سے حج کیا جائے نہ زکوٰۃ ادا کی جائے۔ اس کے مسلمان قریبی رشتہ دار اس کے ترکہ کے وارث بھی نہیں ہوں گے بلکہ اس کے ترکہ کو مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کرا دیا جائے کیونکہ ترک نماز کفر اکبر ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ثابت ہے:

(العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها فقد كفر) (جامع الترمذي‘ الايمان‘ باب ما جاء ففي ترك الصلاة‘ ح: 2621)

’’وہ عہد جو ہمارے اور ان کے مابین ہے، وہ نماز ہے۔ جس نے اسے ترک کر دیا اس نے کفر کیا۔‘‘

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:

(بين الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلاة) (صحيح مسلم‘ الايمان‘ باب بيان اطلاق اسم الكفر....الخ‘ ح: 82)

’’آدمی اور شرک و کفر کے درمیان (فرق) ترک نماز (سے) ہے۔‘‘

اسی طرح کتاب و سنت کے اور بھی دلائل ہیں جو ہماری بات پر دلالت کرتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے حالات کی اصلاح فرما دے۔ سب کو نماز کی حفاظت و اس پر استقامت اور ترک نماز کے اسباب سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب المناسک : ج 2  صفحہ 255

محدث فتویٰ

 

تبصرے