سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(335) اکیلی عورت کا محرم کے بغیر سفر حج کرنا

  • 8882
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1078

سوال

(335) اکیلی عورت کا محرم کے بغیر سفر حج کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت یہ کہتی ہے کہ میری والدہ مغرب میں ہے اور میں سعودیہ میں کام کرتی ہوں۔ میں انہیں فریضہ حج ادا کرنے کے لیے یہاں بلانا چاہتی ہوں لیکن ان کے ساتھ کوئی محرم نہیں ہے کیونکہ میرے والد فوت ہو چکے ہیں اور میرے بھائی فریضہ حج ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس (یعنی آپ کی والدہ) کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ حج ادا کرن کے لیے اکیلی آئے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(لا تسافر المراة الا مع ذي محرم)

’’کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمائی تو ایک آدمی نے کھڑے ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری بیوی حج کے لیے جا رہی ہے اور میرا فلاں فلاں غزوہ میں نام لکھا جا چکا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(انطلق فحج مع امراتك) (صحيح البخاري‘ النكاح‘ باب لا يخلون رجل بامراة...الخ‘ ح: 5233‘ وجزاء الصيد‘ باب حج النساء‘ ح: 1862 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب سفر المراة مع محرم...الخ‘ ح: 1341)

’’تم جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘

عورت کے ساتھ جب محرم نہ ہو تو اس پر حج واجب نہیں ہے کیونکہ یا تو اس سے یہ فریضہ ساقط ہے یا محرم کی عدم موجودگی کی وجہ سے اسے مکہ مکرمہ پہنچنے کی قدرت ہی نہیں ہے اور عدم قدرت شرعی عذر ہے یا اس پر حج کی ادائیگی ہی واجب نہیں ہے، لہذا اس کے فوت ہونے کی صورت میں اس کے ترکہ میں سے حج کرا دیا جائے۔

بہرحال میں اس سائل خاتون سے یہ کہوں گا کہ اگر عورت فوت ہو جائے اور وہ محرم کی عدم موجودگی کی وجہ سے حج نہ کر سکے تو اسے کوئی گناہ ہو گا نہ کوئی نقصان کیونکہ یہ عورت شرعا معذور ہے اور غیر مستطیع اور فرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلِلَّهِ عَلَى النّاسِ حِجُّ البَيتِ مَنِ استَطاعَ إِلَيهِ سَبيلًا...٩٧﴾... سورة آل عمران

’’اور لوگوں پر اللہ کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے، وہ اس کا حج کرے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب المناسک : ج 2  صفحہ 251

محدث فتویٰ

تبصرے