سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(16) اللہ کی وحدانیت اور نبی ﷺ کی رسالت کی گواہی اسلام کی کلید ہے

  • 888
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3089

سوال

(16) اللہ کی وحدانیت اور نبی ﷺ کی رسالت کی گواہی اسلام کی کلید ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم مفتی صاحب سے سوال کیا گیا کہ آپ شہادتین کی وضاحت فرما دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

شہادتین یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یہ دونوں شہادتیں اسلام کی کنجی ہیں۔ ان کے بغیر اسلام میں داخل ہونا ممکن ہی نہیں، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اس وقت حکم دیا تھا جب آپ نے انہیں یمن بھیجا تھا کہ سب سے پہلے آپ انہیں اس بات کی دعوت دیں کہ وہ یہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، آپ نے ان سے فرمایا:

«فَاِذَا جِئْتَهُمْ فَادْعُهُمْ اِلٰی اَنْ يَشْهَدُوا اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰهِ»(صحیح البخاری، المغازی، باب بعث ابی موسی ومعاذ الی الیمن، ح: ۴۳۴۷ وصحیح مسلم، الایمان، باب الدعاء الی الشهادتین وشرائع الاسلام، ح:۱۹)

’’پس جب آپ ان کے پاس جائیں تو انہیں اس بات کی دعوت دیں کہ وہ یہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔‘‘

ان میں سے پہلا کلمہ، یعنی اس بات کی گواہی کہ لَا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ  ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘ اس کے ساتھ انسان اپنی زبان اور اپنے دل کے ساتھ اعتراف کرتا ہے کہ اللہ عزوجل کے ساتھ کوئی معبود حقیقی نہیں کیونکہ ’’الٰہ‘‘ مَالُوہٌ کے معنی میں ہے، اس لیے کہ تَأَلَّہَ کے معنی عبادت کرنے کے ہیں گویا اس کے

معنی یہ ہوئے کہ اللہ وحدہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔ یہ جملہ نفی واثبات پر مشتمل ہے، نفی ’’لَا اِلٰهَ‘‘ ہے یعنی کوئی الہ نہیں اور اثبات ہے ’’الا الله‘‘ یعنی سوائے اللہ کے۔ اور ’’اللّٰه‘‘ لفظ جلالت ہے، جو ’’لا‘‘ کی خبر محذوف سے بدل ہے، گویا اصل عبارت اس طرح ہے: «لَا اِلٰهَ حَقٌّ اِلاَّ اللّٰهُ» ’’اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔‘‘ یہ دل کے ساتھ ایمان کے بعد زبان سے اقرار ہے اور یہ اللہ وحدہ کے لیے اخلاص عبادت اور اس کے سوا ہر چیز کی عبادت کی نفی پر مشتمل ہے۔

ہم نے جو یہ کہا کہ یہاں ’’حَقٌ‘‘ محذوف ہے، اس سے اس اشکال کا جواب بھی واضح ہو جاتا ہے جو بہت سے لوگ پیش کیا کرتے ہیں اور وہ یہ کہ تم کیسے کہتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، جب کہ اللہ کے سوا بہت سے معبودوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام معبود رکھا ہے اور ان کی پوجا کرنے والے بھی انہیں معبود ہی کہتے ہیں جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿فَما أَغنَت عَنهُم ءالِهَتُهُمُ الَّتى يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ مِن شَىءٍ لَمّا جاءَ أَمرُ رَبِّكَ...﴿١٠١﴾... سورة هود

’’جب تمہارے پروردگار کا حکم آپہنچا تو جن معبودوں کو وہ اللہ کے سوا پکارا کرتے تھے وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آئے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَلا تَجعَل مَعَ اللَّهِ إِلـهًا ءاخَرَ...﴿٣٩﴾... سورة الإسراء

’’اور اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود نہ بنانا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَلا تَدعُ مَعَ اللَّهِ إِلـهًا ءاخَرَ...﴿٨٨﴾... سورة القصص

’’اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود (سمجھ کر) نہ پکارنا۔‘‘

اور مزید فرمایا:

﴿لَن نَدعُوَا۟ مِن دونِهِ إِلـهًا...﴿١٤﴾... سورة الكهف

’’ہم اس کے سوا کسی کو معبود (سمجھ کر) نہ پکاریں گے۔‘‘

چنانچہ یہ کیسے ممکن ہے کہ لا اله الا الله  بھی کہیں اور غیر اللہ کے لیے الوہیت بھی ثابت کریں؟ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم غیر اللہ کے لیے الوہیت ثابت کریں جب کہ رسولوں نے اپنی قوموں سے کہا تھا:

﴿اعبُدُوا اللَّهَ ما لَكُم مِن إِلـهٍ غَيرُهُ...﴿٥٩﴾... سورةالأعراف

’’اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔‘‘

اس اشکال کا جواب لا اله الا الله کی خبر محذوف قرار دینے کی صورت میں واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ معبود، جن کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے، معبود تو ہیں مگر یہ معبودان باطلہ ہیں کیونکہ انہیں ذرہ بھر حق الوہیت حاصل نہیں۔ اس کی دلیل حسب ذیل ارشاد ربانی تعالیٰ ہے:

﴿ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الحَقُّ وَأَنَّ ما يَدعونَ مِن دونِهِ البـطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ العَلِىُّ الكَبيرُ ﴿٣٠﴾... سورة لقمان

’’یہ اس لیے کہ اللہ کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ لغو ہیں اور یہ کہ اللہ ہی عالی رتبہ (اور) گرامی قدر ہے۔‘‘

اس کی دلیل یہ ارشاد ربانی تعالیٰ بھی ہے:

﴿أَفَرَءَيتُمُ اللّـتَ وَالعُزّى ﴿١٩ وَمَنوةَ الثّالِثَةَ الأُخرى ﴿٢٠ أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأُنثى ﴿٢١ تِلكَ إِذًا قِسمَةٌ ضيزى ﴿٢٢ إِن هِىَ إِلّا أَسماءٌ سَمَّيتُموها أَنتُم وَءاباؤُكُم ما أَنزَلَ اللَّهُ بِها مِن سُلطـنٍ...﴿٢٣﴾... سورة النجم

’’بھلا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا اور تیسری دیوی منات کو جو گھٹیا ہے (کیا یہ الٰہ ہو سکتے ہیں؟ مشرکو!) کیا تمہارے لیے تو بیٹے ہوں اور اللہ کے لیے بیٹیاں؟ یہ تقسیم تو بہت بے انصافی کی ہے۔ یہ تو صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گھڑ لیے ہیں، اللہ نے تو ان کی کوئی سند نازل نہیں کی ہے۔‘‘

اور حضرت یوسف علیہ السلام  کے بارے میں فرمایا:

﴿ما تَعبُدونَ مِن دونِهِ إِلّا أَسماءً سَمَّيتُموها أَنتُم وَءاباؤُكُم ما أَنزَلَ اللَّهُ بِها مِن سُلطـنٍ...﴿٤٠﴾... سورة يوسف

’’تم اس کے سوا جن کی عبادت کرتے ہو وہ نام ہی تو ہیں جو خود تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کی کوئی سند نازل نہیں کی۔‘‘

تو لا اله الا لله کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور یہ معبود جو اس کے سوا ہیں اور ان کے پجاری ان کی الوہیت کے قائل ہیں، تو ان کی الوہیت حقیقی نہیں بلکہ ان کی الوہیت باطل ہے اور حقیقی الوہیت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے شایان شان ہے۔ اور اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰهِ ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ یہ زبان کے ساتھ اقرار اور دل کی تصدیق کے ساتھ مشروط ہے کہ حضرت محمد بن عبداللہ قریشی ہاشمی(  صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام جن وانس کی طرف مبعوث فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قُل يـأَيُّهَا النّاسُ إِنّى رَسولُ اللَّهِ إِلَيكُم جَميعًا الَّذى لَهُ مُلكُ السَّمـوتِ وَالأَرضِ لا إِلـهَ إِلّا هُوَ يُحيۦ وَيُميتُ فَـٔامِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ الَّذى يُؤمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمـتِهِ وَاتَّبِعوهُ لَعَلَّكُم تَهتَدونَ ﴿١٥٨﴾... سورة الأعراف

’’(اے محمد!) کہہ دو، اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، وہ جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ تو تم اللہ پر اور اس کے رسول، پیغمبر امی پر، جو خود بھی اللہ پر اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو تا کہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘

اور فرمایا:

﴿تَبارَكَ الَّذى نَزَّلَ الفُرقانَ عَلى عَبدِهِ لِيَكونَ لِلعـلَمينَ نَذيرًا ﴿١... سورة الفرقان

’’وہ (اللہ عزوجل) بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ جہان والوں کو ہدایت کرے۔‘‘

اس گواہی کا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر اس بات کی تصدیق کی جائے جس کی آپ نے خبر دی ہے، ہر اس کام کو تسلیم کیا جائے جس کا آپ نے حکم دیا ہے اور ہر اس چیز سے اجتناب کیا جائے جس سے آپ نے منع فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اسی طرح کی جائے جس طرح کرنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طریقہ سکھایا ہے۔ اس گواہی کاتقاضا بھی یہی ہے کہ بندہ یہ عقیدہ رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ربوبیت میں کوئی حق نہیں، کائنات میں آپ کو کوئی تصرف حاصل نہیں، اسی طرح عبادت میں بھی آپ کو کوئی حق حاصل نہیں، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو خود اللہ کے بندے ہیں لہٰذا آپ کی عبادت نہیں کی جا سکتی اور آپ اللہ کے رسول ہیں کہ آپ کی تکذیب نہیں کی جا سکتی، آپ اپنے لیے یا کسی کے لیے نفع ونقصان کے مالک نہیں سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ چاہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿قُل لا أَقولُ لَكُم عِندى خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعلَمُ الغَيبَ وَلا أَقولُ لَكُم إِنّى مَلَكٌ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحى إِلَىَّ...﴿٥٠﴾... سورة الأنعام

’’کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ (یہ کہ) میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے (اللہ کی طرف سے) آتا ہے۔‘‘

آپ اللہ تعالیٰ کے عبد مامور ہیں اور اسی بات کا اتباع کرتے ہیں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قُل إِنّى لا أَملِكُ لَكُم ضَرًّا وَلا رَشَدًا ﴿٢١ قُل إِنّى لَن يُجيرَنى مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَن أَجِدَ مِن دونِهِ مُلتَحَدًا ﴿٢٢﴾... سورة الجن

’’(یہ بھی) کہہ دو کہ میں تمہارے حق میں نقصان اور نفع کا کچھ اختیار نہیں رکھتا، (یہ بھی) کہہ دو کہ اللہ کے عذاب سے مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا اور میں اس کے سوا کہیں جائے پناہ نہیں پاتا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿قُل لا أَملِكُ لِنَفسى نَفعًا وَلا ضَرًّا إِلّا ما شاءَ اللَّهُ وَلَو كُنتُ أَعلَمُ الغَيبَ لَاستَكثَرتُ مِنَ الخَيرِ وَما مَسَّنِىَ السّوءُ إِن أَنا۠ إِلّا نَذيرٌ وَبَشيرٌ لِقَومٍ يُؤمِنونَ ﴿١٨٨﴾... سورة الأعراف

’’کہہ دو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کر لیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں تو مومنوں کو ڈرانے اور خوش خبری سنانے والا ہوں۔‘‘

اسی سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کا کوئی مستحق نہیں، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ مخلوقات میں سے کوئی تو معلوم یہ ہوا کہ عبادت کی مستحق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پاک ہے، اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿قُل إِنَّ صَلاتى وَنُسُكى وَمَحياىَ وَمَماتى لِلَّهِ رَبِّ العـلَمينَ ﴿١٦٢ لا شَريكَ لَهُ وَبِذلِكَ أُمِرتُ وَأَنا۠ أَوَّلُ المُسلِمينَ ﴿١٦٣﴾... سورة الأنعام

’’کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے اول فرمانبردار ہوں۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حق یہ ہے کہ آپ کو اسی مقام و مرتبہ پر فائز قرار دیا جائے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فائز قرار دیا ہے اور وہ یہ کہ آپ اللہ تعالیٰ کے عبد اور اس کے رسول ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ52

محدث فتویٰ

تبصرے