سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(329) جو شخص حج میں رفژ اور تمام گناہ ترک کر دے اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں

  • 8876
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1078

سوال

(329) جو شخص حج میں رفژ اور تمام گناہ ترک کر دے اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث میں آیا ہے:

(من حج لله فلم يرفث ولم يفسق رجع كيوم ولدته امه) (صحيح البخاري‘ الحج‘ باب فضل الحج المبرور‘ ح: 1521 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب فضل الحج والعمرة‘ ح: 1350)

’’جو شخص اللہ (کی رضا جوئی) کے لیے حج کرے اور پھر نہ عورتوں سے اختلاط کرے اور نہ کوئی گناہ کا کام کرے تو وہ اس طرح واپس لوٹتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو۔‘‘

سوال یہ ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر حج کرنے والے کے حج سے پہلے کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح ترین احادیث میں سے ہے۔ اس میں مومن کے لیے بشارت ہے کہ جب وہ صفت مذکورہ کے مطابق حج ادا کرے تو یقینا اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرما دے گا کیونکہ رفث اور فسوق کے ترک کا معنی یہ ہے کہ اس نے صدق دل سے توبہ کر لی ہے اور جو شخص توبہ کرے اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ رفث سے مراد حالت احرام میں عورتوں سے اختلاط اور وہ قول و عمل ہے جو اس کا سبب بنے۔ فسوق سے مراد تمام گناہ ہیں، تو جو شخص حج میں رفث اور تمام معاصی چھوڑ دے تو اس کے سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ معصیت پر اصرار کرنا بھی فسوق میں شامل ہے جو شخص موصیت پر ڈٹا رہے تو وہ فسوق کو ترک کرنے والا نہیں ہے۔ لہذا اس کے لیے یہ وعدہ نہیں ہے۔ یہ حدیث اسی طرح ہے جیسے ایک دوسری حدیث میں ہے:

(والحج المبرور ليس له جزاء الا الجنة) (صحيح البخاري‘ العمرة‘ باب وجوب العمرة وفضلها‘ ح: 1773 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب فضل الحج والعمرة‘ ح: 1349)

’’حج مبرور کی جزا جنت کے سوا اور کچھ نہیں۔‘‘

مبرور سے مراد وہ حج ہے جس میں واجبات کو مکمل طور پر ادا کیا گیا ہو، گناہوں کو ترک کر دیا گیا ہو اور کسی بھی گناہ پر اصرار نہ کیا گیا ہو۔ حج اور عمرہ کرنے والے تمام مومنوں پر واجب ہے کہ وہ تمام گناہوں سے اجتناب کریں، پہلے کئے ہوئے تمام گناہوں سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے ہاں جو اجروثواب ہے، اس کی رحبت کے پیش نظر سا عزم کریں کہ آئندہ ان گناہوں کا ارتکاب نہیں کریں گے۔

تکمیل توبہ میں سے یہ بات بھی ہے کہ گناہ کا تعلق اگر حقوق العباد سے ہے تو اس حق کو ادا کرے یا متعلقہ آدمی سے اسے معاف کروالے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَتوبوا إِلَى اللَّهِ جَميعًا أَيُّهَ المُؤمِنونَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٣١﴾... سورة النور

’’اور مومنو! تم سب اللہ کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ۔‘‘

اور فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا توبوا إِلَى اللَّهِ تَوبَةً نَصوحًا عَسىٰ رَ‌بُّكُم أَن يُكَفِّرَ‌ عَنكُم سَيِّـٔاتِكُم وَيُدخِلَكُم جَنّـٰتٍ تَجر‌ى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ‌...٨﴾... سورة التحريم

’’مومنو! اللہ کے آگے صاف دل سے (خالص اور سچی) توبہ کرو، امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ تم سے دور کر دے گا اور تم کو باغ ہائے بہشت میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، داخل کرے گا۔‘‘

جو شخص صدق دل سے سچی پکی توبہ کرے وہ کامیاب ہو جائے گا، اور اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما کر اسے جنت میں داخل فرما دے گا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ حاجیوں اور غیر حاجیوں تمام مسلمانوں کو سچی توبہ اور حق پر استقامت کی توفیق عطا فرمائے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب المناسک : ج 2  صفحہ 247

محدث فتویٰ

 

تبصرے