السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت ہر سال شوال کے چھ روزے رکھا کرتی تھی لیکن ایک سال رمضان کی ابتدا ہی میں اس کے بچے کی ولادت ہوئی اور پھر جب وہ رمضان کے بعد پاک ہوئی تو اس نے رمضان کے روزوں کی قضا شروع کر دی، تو کیا رمضآن کے روزوں کی قضا کے بعد شوال کے چھ روزوں کی قضا لازم ہے، خواہ یہ شوال کا مہینہ نہ بھی ہو یا صرف رمضان ہی کے روزوں کی قضا لازم ہے؟ کیا شوال کے یہ چھ روزے ہمیشہ رکھنا لازم ہیں یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شوال کے یہ چھ روزے سنت ہیں، فرض نہیں کیونکہ نبی کریم نے فرمایا ہے:
(من صام رمضان ثم اتبعه ستا من شوال فذلك صيام الدهر) (صحيح مسلم‘ الصيام‘ باب استحباب صوم ستة ايام...الخ‘ ح: 1164 و جامع الترمذي‘ الصوم‘ باب ما جاء في صيام ستة...الخ‘ح: 759 واللفظ له)
’’جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھ لیے تو وہ اس طرح ہے جیسے سال بھر کے روزے رکھے ہوں۔‘‘
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ روزے مسلسل رکھ لیے جائیں یا متفرق کیونکہ حدیث کے الفاظ مطلق ہیں ہاں البتہ انہیں جلد رکھنا افضل ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَعَجِلتُ إِلَيكَ رَبِّ لِتَرضىٰ ﴿٨٤﴾... سورة طه
’’اور اے میرے پرورداگر! میں نے تیری طرف (آنے کی) جلدی اس لیے کی کہ تو خوش ہو۔‘‘
علاوہ ازیں دیگر بہت سی آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ بھی اس بات پر دلالت کناں ہیں کہ نیکی کے کاموں میں مسابقت و مسارعت افضل ہے۔ ان روزوں کو ہمیشہ رکھنا واجب تو نہیں ہے ہاں البتہ افضل ضرور ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
(احب العمل الي الله ماداوم عليه صاهبه‘ وان قل) (صحيح البخاري‘ الايمان‘ باب احب الدين...الخ‘ ح: 43 وصحيح مسلم‘ الصيام‘ باب صيام النبي صلي الله عليه وسلم في غير رمضان...الخ‘ ح: 782 (قبل الحديث: 1157) واللفظ له)
’’اللہ تعالیٰ کو وہ عمل بہت پسند ہے جسے عمل کرنے والا ہمیشہ سر انجام دے خواہ وہ عمل کم ہی ہو۔‘‘
شوال کے ختم ہونے کے بعد ان روزوں کی قضا نہیں ہے کیونکہ یہ روزے سنت ہیں ارو اب ان کا وقت ختم ہو گیا ہے خواہ وقت کسی عذر کی وجہ سے ختم ہوا یا بغیر عذر کے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب