سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(109) حریت فکر کا نظریہ کہاں تک درست ہے؟

  • 882
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2315

سوال

(109) حریت فکر کا نظریہ کہاں تک درست ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم ’’حریت فکر‘‘ کے الفاظ سنتے اور پڑھتے ہیں درحقیقت یہ ’’حریت اعتقاد‘‘ کی طرف گویا کہ دعوت ہے، اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اس بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ جو شخص اس بات کو جائز سمجھتا ہے کہ انسان اعتقاد میں آزاد ہے وہ جو چاہے دین اختیار کرے تو ایسا شخص کافر ہے کیونکہ جو شخص بھی آزادی خیال کا عقیدہ رکھے کہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرنا بھی جائز ہے وہ اپنے اس عقیدہ کی وجہ سے اللہ عزوجل کے ساتھ کفر کرتا ہے، اس لئے اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا۔ وہ توبہ کر لے تو درست ورنہ اسے قتل کرنا واجب ہوگا۔

ادیان افکار نہیں ہیں بلکہ یہ تو وحی الٰہی ہیں جسے اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں پر نازل فرمایا ہے تاکہ بندے اس کے مطابق زندگی بسر کریں اور یہ لفظ ’’فکر‘‘ جس سے مقصود دین ہوتا ہے، واجب ہے کہ اسے اسلامی لغت کی کتابوں سے حذف کر دیا جائے کیونکہ دراصل لفظ فکر کہہ کر اسی فاسد معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے  اس ترکیب لفظی کے اعتبار سے گویا اسلام ایک فکر ہے۔ نصرانیت، جسے لوگ مسیحیت کے نام سے پہچانتے ہیں وہ بھی ایک فکر ہے اور یہودیت بھی ایک فکرہے گویاکہ شریعتیں محض زمینی افکار ہیں جنہیں لوگوں میں سے جو چاہیں آزادی کے ساتھ اختیار کر سکتے ہیں، حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ ادیان سماوی تو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین ہیں، لہٰذا انسان کو ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ یہ بلاشبہ وحی الٰہی سے عبارت ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس لیے نازل فرمایا ہے تاکہ ان کے مطابق اس کے بندے اس کی عبادت کریں، اس بنیادپرانہیں ’’فکر‘‘ نہیں کہنا درست نہیں۔ (یہ الگ بات ہے کہ یہودیت اور عیسائیت دونوں اپنی اصل یعنی اسلام پر قائم نہیں، لہٰذا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین اسلام ہی سچا دین اور بنی نوع انسان کے لیے واجب الاتباع ہے)

خلاصہ جواب یہ ہے کہ جو شخص بھی یہ عقیدہ رکھے کہ ہر شخص کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ جو چاہے دین اختیار کرے اسے مکمل آزادی حاصل ہے، تو ایسا شخص اپنے اس عقیدہ کی بنیادپر کافر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿وَمَن يَبتَغِ غَيرَ الإِسلـمِ دينًا فَلَن يُقبَلَ مِنهُ...﴿٨٥﴾... سورة آل عمران

’’اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہوگا، وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلـمُ...﴿١٩﴾... سورة آل عمران

’’دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔‘‘

لہٰذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ اسلام کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرنا بھی جائز ہے کیونکہ اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے تو اہل علم کی صراحت کے مطابق وہ کافرکہلائے گا اور دائرئہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ181

محدث فتویٰ

تبصرے