السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب نفاس والی عورت ایک ہفتہ میں پاک ہو جائے اور رمضان کے روزے رکھنا شروع کر دے لیکن کچھ دنوں بعد دوبارہ خون جاری ہو جائے تو کیا وہ اس حالت میں روزہ چھوڑ دے؟ اور کیا اسے ان تمام دنوں کی قضا دینا پڑے گی جن میں اس نے روزے رکھے ہیں یا چھوڑے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب زچہ بچہ چالیس دنوں کے اندر پاک ہو جائے اور روزے رکھنا شروع کر دے لیکن چالیس دنوں کی تکمیل سے قبل دوبارہ پھر خون جاری ہو جائے تو اس نے جو روزے رکھے ہیں وہ صحیح ہیں البتہ اب خون جاری ہونے کے بعد وہ نماز روزہ چھوڑ دے حتیٰ کہ وہ پاک ہو جائے یا چالیس دن پورے ہو جائیں کیونکہ چالیس دن کے اندر اندر جو خون آئے وہ زچگی کا خون ہے۔ جب چالیس دن پورے ہو جائیں تو اس کے لیے غسل کرنا واجب ہے خواہ وہ طہارت کی علامت نہ دیکھے، کیونکہ علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق نفاس کی زیادہ سے زیادہ حد چالیس دن ہے۔ اگر چالیس دنوں کے بعد بھی خون جاری رہے تو اسے ہر نماز کے وقت میں وضو کر کے اسے ادا کرنا ہو گا حتیٰ کہ خون منقطع ہو جائے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحاضہ کو حکم دیا تھا۔[1] چالیس دنوں کے بعد خاوند اپنی بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کر سکتا ہے خواہ اس نے ابھی تک طہارت کی علامت نہ بھی دیکھی ہو کیونکہ چالیس دنوں کے بعد زچگی کا خون نہیں بلکہ یہ ایک فاسد خون ہے جو نماز روزہ اور جنسی تعلق سے مانع نہیں ہے۔ ہاں البتہ اگر نفاس کے چالیس دنوں کے بعد کسی عورت کے حیض کے ایام شروع ہو جائیں تو پھر وہ نماز روزہ ترک کر دے گی، (جنسی تعلق بھی جائز نہ ہو گا) کیونکہ یہ حیض کا خون ہو گا۔
[1] سنن ابي داود، الطھارة، باب ماروي ان المستحاضه تغسل لکل صلاة، حدیث: 292
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب