السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب تجارتی مقاصد کی خاطر سفر کر کے میں شعبان کے آخر میں ایک شہر میں پہنچ جاؤں اور نصف شوال تک وہاں قیام کروں تو کیا اس صورت میں مجھے روزے نہ رکھنے کی اجازت ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت صرف اس صورت میں ہے جب سفر کی مشقت یا مرض وغیرہ کا کوئی عذر ہو، جب کہ مسافر کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ روزہ رکھ لے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر عمل یہی تھا، ہاں البتہ اگر سفر میں مشقت ہو تو پھر روزہ نہ رکھے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ رخصت سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور اگر وہ حالت سفر میں ہو تو اس کے لیے قصر کرنا اور روزہ نہ رکھنا جائز ہے۔ اسی طرح جب وہ کسی شہر میں مقیم نہ ہو بلکہ شہر سے باہر کسی خیمہ میں مقیم ہو یا گاڑی ہی میں رہا ہو اور گرمی، دھوپ اور گرم ہوا کی وجہ سے اسے تکلیف ہوتی ہو اور اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بھی اسے آنا جانا پڑتا ہو تو اس صورت میں بھی اسے اجازت ہے کہ روزہ نہ رکھے۔ اور اگر صورت حال یہ ہو کہ وہ کسی شہر میں مقیم ہو، ائیر کنڈیشنڈ ہوٹل، عالی شان محل یا کسی بلڈنگ میں سکونت پذیر ہو، ضررویات بلکہ آرام و راحت کے تمام سامان میسر ہوں کہ بشتر، بیڈ، کھانے پینے کی اشیاء ائیر کنڈیشنر اور دیگر تمام سہولتوں سے مستفید ہو رہا ہو تو اس حالت میں یہ مقیم شمار ہو گا اور اسے حالت سفر قرار نہیں دیا جائے گا کہ سفر تو عذاب کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے، لہذا میری رائے میں ایسے شخص کو نہ نماز قصر کے ساتھ پڑھنی چاہیے اور نہ روزہ ہی چھوڑنا چاہیے بلکہ یہ مقیم لوگوں کے حکم میں ہے۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے رمضان المبارک کے دوسرے جمعہ کے خطبہ میں خطیب سے سنا کہ اس مزدور کے لیے روزہ چھوڑ دینا جائز ہے جسے کام کی وجہ سے بہت محنت مشقت اٹھانا پڑتی ہو اور اس کام کے علاوہ وہ کوئی اور کام بھی نہ کر سکتا ہو تو وہ رمضان کے ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا دے دے جس کی قیمت انہوں نے پندرہ درہم بیان کی۔ کیا اس فتویٰ کی کتاب و سنت سے کوئی صحیح دلیل ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مزدور کے لیے محض کام کاج کی وجہ سے روزہ چھوڑ دینا جائز نہیں ہے۔ ہاں البتہ اگر اس کام کی وجہ سے اسے بہت ہی زیادہ مسقت اٹھانا پڑتی ہو جس کی وجہ وہ دن کے وقت روزہ افطار کر دینے کے لیے مجبور و مضطر ہو جائے تو وہ اس مشقت کے ازالہ کے لیے روزہ توڑ دے اور پھر غروب آفتاب تک کچھ نہ کھائے پیے اور پھر لوگوں کے ساتھ افطار کرے اور اس دن کے روزہ کی بعد میں قجا دے لے اور آپ نے جو فتویٰ ذکر کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب