سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(212) لیل و نہار کی طوالت

  • 8751
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1118

سوال

(212) لیل و نہار کی طوالت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسکنڈے نیویا۔ اور اس سے اوپر کے شمالی علاقوں میں مسلمانوں کو رات اور دن کے طول و اختصار کی وجہ سے مشکل پیش آتی ہے کیونکہ یہاں دن بائیس گھنٹے کا اور رات صرف دو گھنٹے کی ہوتی ہے اور اگلے موسم میں صورتحال اس کے برعععکس ہوتی ہے جیسا کہ ایک سائل کو یہ صورت حال پیش آئی، جب اس کا رمضان میں یہاں سے گزر ہوا۔ اس کا کہنا ہے کہ بعض علاقوں میں دن اور رات چھ چھ ماہ کے ہوتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان علاقوں میں روزہ کس طرح رکھا جائے گا یا جو لوگ کام اور تعلیم کے لیے یہاں مقیم ہیں وہ کس طرح روزے رکھیں گے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ان علاقوں میں مشکل صرف روزہ کے حوالے ہی سے نہیں بلکہ یہ مشکل نماز کے حوالے سے بھی ہے لیکن اگر ان علاقوں میں رات اور دن ہے تو اس کے مطابق عمل ہو گا خواہ دن لمبا ہو یا چھوٹا اور اگر یہاں دن رات نہ ہو جس طرح کے قطبی علاقوں میں دن اور رات چھ چھ ماہ کے ہوتے ہیں تو یہ لوگ اپنے روزوں اور نمازوں کے اوقات کے اندازے مقرر کر لیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اندازہ کس حساب سے لگایا جائے گا؟ بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ کے اوقات کو معیار بنایا جائے گا کیونکہ مکہ مکرمہ ام القریٰ ہے اور ام وہ چیز ہوتی ہے جس کی اقتدا کی جائے، جس طرح امام کی اقتدا کی جاتی ہے، جس طرح کہ شاعر نے کہا ہے۔

(علي راسه ام له يقتدي بها)

بعض اہل علم نے یہ کہا ہے کہ ان علاقوں میں بارہ گھنٹے کا دن اور بارہ گھنٹے کی رات شمار کیا جائے گی کیونکہ رات دن کے لیے متعدل وقت یہی ہے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ ان علاقوں کے اس قریب ترین ملک کے اوقات کو معیار مقرر کیا جائے گا جہاں دن رات معمول کے مطابق ہوں یہی قول زیادہ راجح ہے کیونکہ قریب ترین علاقے اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی اتباع کیا جائے، جغرافیائی اعتبار سے بھی ان کا موسم ان کے قریب ترین ہے، لہذا وہ ایسے قریب ترین علاقے کے اوقات کو اپنے لیے معیار قرار دیں جہاں دن رات معمول کے مطابق ہو اور انہی اوقات کے مطابق نماز اور روزے کو ادا کریں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الصیام : ج 2  صفحہ 177

محدث فتویٰ

تبصرے