السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو شخص اذان فجر کو سن کر بھی کھانا پینا جاری رکھے اس کے روزے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مومن کے لیے ضروری ہے کہ جب طلوع فجر واضح ہو جائے تو وہ کھانے پینے اور دیگر مفطرات سے رک جائے جب کہ روزہ فرض ہو مثلا یہ کہ رمضان کا یا نذر کا یا کفارہ وغیرہ کا روزہ ہو، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَكُلوا وَاشرَبوا حَتّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الخَيطُ الأَبيَضُ مِنَ الخَيطِ الأَسوَدِ...١٨٧﴾... سورة البقرة
’’اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہارے لیے صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے واضح ہو جائے پھر روزہ (رکھ کر) رات تک پورا کرو۔‘‘
جب کوئی شخص اذان سنے اور اسے معلوم ہو کہ یہ اذان فجر ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ کھانے پینے سے رک جائے۔ اگر موذن طلوع فجر سے قبل اذان دے رہا ہو تو پھر رک جانا واجب نہیں بلکہ کھانا پینا جائز ہے، حتیٰ کہ فجر واضح ہو جائے اور اگر یہ معلوم نہ ہو کہ اذان فجر سے پہلے ہے یا بعد میں تو پھر افضل اور زیادہ محتاط بات یہ ہے کہ رک جائے اور اگر اذان کے وقت کچھ کھا پی لیا تو اس سے کچھ نقصان نہیں ہو گا کیونکہ اسے طلوع فجر کا علم نہیں ہے۔
یہ معلوم امر ہے کہ جو لوگ شہروں میں رہتے ہیں، جہاں بجلی کی روشنیاں ہیں وہ عین صحیح وقت پر طلوع فجر کو معلوم نہیں کر سکتے لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ وہ ازان اور ان کیلنڈرون کے مطابق عمل کریں جن میں گھنٹوں اور منٹوں کے حساب سے طلوع فجر کا تعین کیا گیا ہوتا ہے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر عمل ہو سکے:
(دع ما يربك الي مالا يريبك) (جامع الترمذي‘ صفة القيامة‘ (باب حديث اعقلها توكل...)‘ ح: 2518)
’’جو چیز تجھے شک میں مبتلا کرتی ہو اس کو چھوڑ کر ایسی چیز کو اختیار کر جو شک میں مبتلا کرنے والی نہ ہو۔‘‘
نیز آپ کے اس فرمان پر عمل ہو سکے:
(من التقي الشبهات استبرا لدينه وعرضه) (صحيح البخاري‘ الايمان‘ باب فضل من استبرا لدينه‘ ح: 52‘ صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب اخذ الحلال وترك الشبهات‘ ح: 1599)
’’جو شخص سبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب