السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض نوجوان (اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمائے) رمضان وغیرہ میں تو سستی کرتے ہیں لیکن رمضان کے روزے بہت اہتمام سے رکھتے اور بھوک پیاس کو برداشت کرتے ہیں۔ آپ انہیں کیا نصیحت فرمائیں گے؟ ایسے نوجوانوں کے روزے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میری ان نوجوانوں کو یہ نصیحت ہے کہ وہ اپنے بارے میں تھوڑا سا غور کریں اور اس حقیقت کو خوب جان لیں کہ نماز شہادتین کے بعد اسلام کا سب سے اہم رکن ہے۔ جو شخص نماز نہ پڑھے اور محض سستی کی وجہ سے چھوڑ دے تو میرے نزدیک راجح قول کے مطابق، جس کی کتاب و سنت کے دلائل سے تائید ہوتی ہے، وہ کافر، ملت اسلامیہ سے خارج اور اسلام سے مرتد ہے، لہذا یہ معاملہ کوئی معمولی معاملہ نہیں۔ جو شخص کافر اور مرتد ہو جائے تو پھر اس کا روزہ، صدقہ یا کوئی اور عمل بھی مقبول نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَما مَنَعَهُم أَن تُقبَلَ مِنهُم نَفَقـتُهُم إِلّا أَنَّهُم كَفَروا بِاللَّهِ وَبِرَسولِهِ وَلا يَأتونَ الصَّلوةَ إِلّا وَهُم كُسالى وَلا يُنفِقونَ إِلّا وَهُم كـرِهونَ ﴿٥٤﴾... سورة التوبة
’’اور ان لوگوں کے خرچ (صدقات) صرف اس لیے قبول نہیں کیے جاتے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور نماز کو آتے ہیں تو محض سست کاہل ہو کر اور خرچ کرتے ہیں تو ناخوشی سے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ان لوگوں کا اپنے مال کو خرچ کرنا بھی ان کے کفر کی وجہ سے قبول نہیں ہوتا حالانکہ اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچتا ہے، نیز فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَقَدِمنا إِلى ما عَمِلوا مِن عَمَلٍ فَجَعَلنـهُ هَباءً مَنثورًا ﴿٢٣﴾... سورة الفرقان
’’اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے، ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کی مانند کر دیں گے۔‘‘
یہ لوگ جو روزہ رکھتے ہیں لیکن نماز نہیں پڑھتے تو ان کا روزہ بھی مقبول نہیں بلکہ مردود ہے کیونکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے وہ کافر ہیں جیسا کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے، لہذا میری ان نوجوانوں کو نصیحت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں، نماز کی پابندی کریں اور نماز کو بروقت اور باجماعت ادا کریں۔ اللہ کی توفیق سے میں انہیں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ جب وہ نماز کی پابندی کریں گے تو اس سے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے رمضان اور رمضان کے بعد بھی اپنے دلوں میں نماز کی رغبت اور شوق محسوس کریں گے اور نماز کو بروقت اور باجماعت ادا کریں گے کیونکہ انسان جب اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کی بارگاہ قدس میں سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ توبہ کے بعد کے اعمال کو یقینا شرف قبولیت سے نوازتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالہ سے ذکر فرمایا ہے کہ درخت کا پھل کھانے کے بعد جب انہوں نے پکی سچی توبہ کر لی تو:
﴿ثُمَّ اجتَبـهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيهِ وَهَدى ﴿١٢٢﴾...سورة طه
’’پھر ان کے پروردگار نے انہیں برگزیدہ کیا پس ان کی توبہ قبول فرمائی اور انہیں سیدھی راہ بتائی۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب