السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس شخص کے روزے کے بارے میں کیا حکم ہے جسے نیند وغیرہ کی وجہ سے رمضان کے آغاز کا طلوع فجر کے بعد علم ہوا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس شخص کو طلوع فجر کے بعد رمضان کے آغاز کا علم ہوا ہو تو اسے چاہیے کہ دن کے باقی حصہ میں ان چیزوں کے استعمال سے رک جائے جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ یہ دن رمضان کا دن ہے اور کسی مقیم اور صحیح آدمی کے لیے یہ جائز نہیں کہ دن کو کوئی ایسی چیز استعمال کرے جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن اسے اس دن کے روزہ کی قضا دینا ہو گی کیونکہ اس نے فجر سے پہلے روزے کی نیت نہیں کی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(من لم يبيت الصيام قبل الفجر فلا صيام له) (سنن النسائي‘ الصيام‘ باب ذكر اختلاف الناقلين لخبر حفصة في ذلك‘ ح: 2333)
’’جو شخص فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کرے، اس کا روزہ نہیں ہے۔‘‘
اس حدیث کو موفق ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے "المغنی" میں نقل کیا ہے اور اکثر فقہاء کا بھی یہی قول ہے۔ یاد رہے اس روزے سے مراد فرض روزہ ہے کیونکہ نفل روزہ کی نیت تو دن کو بھی جائز ہے بشرطیکہ فجر کے بعد کوئی ایسی چیز استعمال نہ کی ہو جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ ثابت ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو اپنی رضا کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صیام و قیام کو شرف قبولیت سے نوازے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب