سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(137) چاندی کے زیورات کی زکوٰۃ

  • 8676
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1114

سوال

(137) چاندی کے زیورات کی زکوٰۃ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے پاس گردن، ہاتھوں سر اور سینے کے زیورات کی صورت میں کچھ چاندی ہے۔ میں نے اپنے شوہر سے کئی مرتبہ یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسے بیچ کر اس کی زکوٰۃ ادا کرے لیکن اس کہنا ہے کہ یہ نصاب سے کم ہے اور اب تقریبا 23 برس گزر گئے ہیں کہ میں نے اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی، تو سوال یہ ہے کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر یہ چاندی نصاب سے کم ہے تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ یاد رہے چاندی کا نصاب ایک سو چالیس مثقال ہے جو کہ چاندی کے چھپن ریال کے ربابر ہے، لہذا چاندی کے زیورات اگر اس مقدار میں ہوں تو علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق ان میں زکوٰۃ واجب ہے بشرطیکہ ایک سال گزر جائے۔ زکوٰۃ کی شرح اڑھائی فی صد سالانہ ہے یعنی سو میں سے اڑھائی ریال اور ایک ہزار میں سے پچیس ریال زکوٰۃ ہے۔

سونے کا نصاب بیش مثقال ہے اور اس کی مقدار ساڑھے گیارہ سعودی گنی یا بانوے گرام ہے، لہذا جب سونے کے زیور کا یہ وزن ہو یا اس سے زیادہ ہو تو علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق اس میں زکوٰۃ واجب ہو گی اور شرح زکوٰۃ چالیسواں حصہ یعنی ایک سو گنی میں سے اڑھائی گنی ہے یا پیپر کرنسی یا چاندی کے سکوں کی صورت میں اس کی جو قیمت بنے اور زیورات کا وزن اگر اس سے زیادہ ہو تو اسی حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(ما من صاحب ذهب ولا فضة‘ لا يودي منها حقها‘ الا اذا كان يوم القيامة‘ صفحت له صفائح من نار‘ فاحمي عليها في نار جهنم‘ فيكوي بها جنبه وجنينه و ظهره‘ كلما بردت اعيدت له‘ في يوم كان مقداره خمسين الف سنة‘ حتي يقضي بين العباد‘ فيري سبيله‘ اما الي الجنة‘ واما الي النار) (صحيح مسلم‘ الزكاة‘ باب اثم مانع الزكاة‘ ح: 987)

’’سونے اور چاندی کا ہر وہ مالک جو ان کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا، تو قیامت کے دن سونے چاندی کو جہنم کی آگ میں پتروں کی صورت میں ڈھال کر ان کے ساتھ اس کی پیشانی، پہلو اور پشت کو اس دن داغا جائے گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے اور یہ عذاب اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ تمام انسانوں کا حساب مکمل نہیں ہو جائے گا، پھر یہ اپنے راستہ کو دیکھے گا کہ وہ جنت کی طرف ہے یا جہنم کی طرف۔!‘‘

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا جو آپ کے پاس آئی اور اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن تھے "کیا تو اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہے؟ اس نے کہا نہیں تو آپ نے فرمایا:

(ايسرك ان يسورك الله بهما يوم القيامة سوارين من نار؟ فالقتهما‘ قالت: هما لله ولرسوله) (سنن ابي داود‘ الزكاة‘ باب الكنز ما هو؟ وزكاة الحلي‘ ح: 1563)

’’کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کی بجائے جہنم کی آگ کے دو کنگن پہنچا دے؟ اس عورت نے وہ دونوں کنگن اتار پھینکے اور کہا یہ دونوں کنگن اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔‘‘

اور اس مضمون کی اور بھی بہت سی احادیث ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الزکاۃ: ج 2  صفحہ 122

محدث فتویٰ

تبصرے