سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(129) گھروں اور گاڑیوں کی زکوٰۃ

  • 8668
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1211

سوال

(129) گھروں اور گاڑیوں کی زکوٰۃ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی کے پاس کچھ گاڑیاں اور گھر ہیں اور وہ ان سے حاصل ہونے والی آمدنی اپنے اہل و یال پر خرچ کر دیتا ہے اور سال بھر اس میں سے وہ کچھ نہیں بچا سکتا، تو کیا اس مال کی زکوٰۃ اس پر واجب ہے؟ گاڑیوں اور گھروں پر زکوٰۃ کب واجب ہو گی؟ اور اس کی کیا مقدار ہو گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

گھر اور گاڑیاں جب ذاتی استعمال کے لیے یا اس لیے ہوں کہ ان سے حاصل ہونے والی آمدنی کو گھریلو ضروریات کے لیے خرچ کیا جائے گا تو ان میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ اگر تمام یا بعض گھر اور گاڑیاں بغرض تجارت ہوں تو سال گزرنے کے بعد ان کی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہو گی اور اگر سال پورا ہونے سے پہلے آپ انہیں گھریلو ضررویات یا نیکی کے کاموں میں خرچ کر دین تو آپ پر زکوٰۃ نہیں ہے۔۔۔، کیونکہ اس سلسلہ میں وارد آیات و احادیث کے عموم سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے حسن سند کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان فرمائی ہے:

(ان رسول الله صلي الله عليه وسلم كان يامنا ان نخرج الصدقة من الذي نعد للبيع) (سنن ابي داود‘ الزكاة‘ باب العروض اذا كانت للتجارة...الخ‘ ح: 1562)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم کرتے تھے کہ ہم اس مال کی زکوٰۃ ادا کریں جو ہم بغرض تجارت تیار کیا ہو۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الزکاۃ: ج 2  صفحہ 118

محدث فتویٰ

تبصرے