السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اہل سنت والجماعت کے ہاں ایمان کی تعریف کیا ہے اور کیا ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل سنت والجماعت کے نزدیک ایمان دل کے ساتھ تصدیق، زبان سے اظہار اور اعضا کے ساتھ عمل کرنے کا نام ہے، ایمان مندرجہ ذیل تین امور پر مشتمل ہے۔
٭ اقرار بالقلب ’’دل کے ساتھ اعتراف۔٭ نطق باللسان ’’زبان سے شہادت‘‘٭عمل بالجوارح ’’اعضاء کے ساتھ عمل۔‘‘
ایمان کی تعریف جب یہ ہے، تو اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے کیونکہ دل کے ساتھ اعتراف کے درجات مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی خبر کا اقرار اس چیز کے اقرار کی طرح نہیں ہو سکتا جس کا بندے نے خود مشاہدہ کیا ہو، اسی طرح ایک آدمی کی خبر کا اقرار اس خبر کے اقرار کی طرح نہیں ہو سکتا جسے دو آدمیوں نے بیان کیا ہو، اسی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا:
﴿رَبِّ أَرِنى كَيفَ تُحىِ المَوتى قالَ أَوَلَم تُؤمِن قالَ بَلى وَلـكِن لِيَطمَئِنَّ قَلبى...﴿٢٦٠﴾... سورة البقرة
’’اے پروردگار! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا، اللہ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر ایمان نہیں رکھتے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، لیکن (میں دیکھنا) اس لیے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کر لے۔‘‘
دل کے اقرار، طمانیت اور سکون کی وجہ سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور اسے انسان خود بھی محسوس کرتا ہے، مثلاً: جب وہ کسی مجلس ذکر میں ہو اور اس میں وعظ ونصیحت اور جہنم و جنت کا ذکر خیرہو تو بندے کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان یوں محسوس کرتا ہے گویا جہنم و جنت کا وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا ہے پھر جب وہ اس مجلس سے اٹھ جائے اور اس پر غفلت طاری ہو جائے تو دل کے اس یقین میں کمزوری آجاتی ہے جو مجلس میںحاضری کے وقت تھی۔
اسی طرح قول سے بھی ایمان میں اضافہ ہوتا ہے کہ جو شخص دس بار اللہ کا ذکر کرے، وہ اس شخص کی طرح تو نہیں ہو سکتا جس نے سو بار اللہ کا ذکر کیا ہو، پہلے کی نسبت اس دوسرے شخص کے ایمان میں بدرجہا اضافہ کی حامل ہے۔ اسی طرح جس شخص نے عبادت کو بہت کامل طریقے سے ادا کیا ہو اس کا ایمان اس شخص کے ایمان سے کہیں بڑھ کر ہوگا۔ جس نے عبادت کو ناقص رہنے دیا ہو۔ اسی طرح جب کوئی انسان اپنے اعضا وجوارح کے ساتھ دوسرے انسان کی نسبت زیادہ عمل سرانجام دے تو دوسرے کی نسبت اس کا ایمان بہرحال بہت زیادہ ہوگا، قرآن وسنت سے ایمان میں کمی بیشی ثابت ہے، مثلاً: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَما جَعَلنا أَصحـبَ النّارِ إِلّا مَلـئِكَةً وَما جَعَلنا عِدَّتَهُم إِلّا فِتنَةً لِلَّذينَ كَفَروا لِيَستَيقِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـبَ وَيَزدادَ الَّذينَ ءامَنوا إيمـنًا...﴿٣١﴾... سورة المدثر
’’اور ان (جہنم کے فرشتوں) کا شمار کافروں کی آزمائش کے لیے مقرر کیا ہے اور اس لیے کہ اہل کتاب یقین کریں اور مومنوں کا ایمان اور زیادہ ہو۔‘‘
اور مزید فرمایا:
﴿وَإِذا ما أُنزِلَت سورَةٌ فَمِنهُم مَن يَقولُ أَيُّكُم زادَتهُ هـذِهِ إيمـنًا فَأَمَّا الَّذينَ ءامَنوا فَزادَتهُم إيمـنًا وَهُم يَستَبشِرونَ ﴿١٢٤﴾ وَأَمَّا الَّذينَ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ فَزادَتهُم رِجسًا إِلى رِجسِهِم وَماتوا وَهُم كـفِرونَ ﴿١٢٥﴾... سورة التوبة
’’اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو بعض منافق (استہزا کرتے اور) پوچھتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کا ایمان زیادہ کیا ہے، تو جو ایمان والے ہیں ان کا تو ایمان زیادہ کیا اور وہ خوش ہوتے ہیں اور جن کے دلوں میں مرض ہے ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا اور وہ مرے بھی تو کافر کے کافر۔‘‘
اور صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَّ دِيْنٍ اَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ اِحْدَاکُنَّ»(صحيح البخاري، الحيض، باب ترک الحائض الصوم، ح:۳۰۴)
’’میں نے دین اور عقل میں ناقص تم عورتوں سے زیادہ اچھے بھلے آدمی کی مت مارنے والا کسی کو نہیں پایا۔‘‘
معلوم ہوا کہ ایمان میں اضافہ اور کمی ہو سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایمان میں اضافے کا سبب کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان میں اضافے کے کئی اسباب ہیں، مثلاً:
اللہ تعالیٰ کی اس کے اسماء و صفات کے ساتھ معرفت: انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے اسماء وصفات کے بارے میں جس قدر زیادہ معرفت حاصل ہوگی، اسی قدر بلا شک وشبہ اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اہل علم جنہیں اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کا وہ علم ہے جو دوسروں کو نہیں ہے تو اس اعتبار سے دوسروں کی نسبت ان کا ایمان زیادہ قوی ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی کونی وشرعی نشانیوں پر غور کرنا: انسان اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں پر، جو اس کی مخلوقات ہیں، جب بھی غور کرتا ہے تو اس کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَفِى الأَرضِ ءايـتٌ لِلموقِنينَ ﴿٢٠﴾ وَفى أَنفُسِكُم أَفَلا تُبصِرونَ ﴿٢١﴾... سورة الذاريات
’’اور یقین کرنے والوں کے لیے زمین میں (بہت سی) نشانیاں ہیں اور خود تمہارے نفوس میں بھی ہیں، تو کیا تم دیکھتے نہیں؟‘‘
اس مضمون کے متعلق اور بھی بہت سی آیات کریمہ ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات پر غور و فکر کرنے سے انسان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔
٭ کثرت طاعات: انسان جب کثرت سے اللہ تعالیٰ کی طاعات بجا لاتا ہے تو اس سے اس کے ایمان میں اضافہ ہو تا رہتا ہے، خواہ یہ طاعات قولی ہوں یا فعلی، ذکر ایمان کی کمیت وکیفیت میں اضافہ کر نے کا باعث ہے، اسی طرح نماز، روزہ اور حج سے بھی ایمان کی کمیت وکیفیت میں اضافہ ہو تا ہے۔
اس کے برعکس ایمان کو نقصان پہنچانے والے اسباب حسب ذیل ہیں:
٭جہالت: اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے بارے میں جہالت ایمان میں کمی کا موجب ہے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے بارے میں انسان کی معرفت میں کمی ہوگی تو اس سے خودبخود اس کے ایمان میں بھی کمی واقع ہو جائے گی۔
٭غور و فکر نہ کرنا: اللہ تعالیٰ کی کونی وشرعی نشانیوں میں غور و فکر نہ کرنا بھی ایمان میں کمی کا سبب بنتا ہے یا کم از کم اس سے ایمان جامد ہو جاتا ہے اور نشوونما نہیں کر پاتا۔
گناہ کا ارتکاب: گناہ کے دل اور ایمان پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لَا يَزْنِی الزَّانِی حِيْنَ يَزْنِی وَهُوَ مُؤْمِنٌ»(صحيح البخاري، الحدود، باب الزنا وشرب الخمر، ح: ۶۷۷۲ وصحيح مسلم، الايمان، باب بيان نقصان الایمان بالمعاصی… ح:۵۷)
’’زانی جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔‘‘
ترک طاعت: ترک طاعت بھی ایمان میں کمی کا سبب ہے۔ اگر طاعت واجب ہو اور اس نے عذر کے بغیر اسے ترک کیا ہو تو یہ ایک ایسی کمی ہے جس پر اسے نہ صرف ملامت کی جائے گی بلکہ سزا بھی دی جائے گی اور اگر اطاعت واجب نہ تھی یا واجب تو تھی مگر اس نے اسے کسی شرعی عذر کی وجہ سے ترک کیا تو یہ ایک ایسی کمی ہے کہ اس پر اسے ملامت نہیں کی جائے گی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص قرار دیا اور دین کے اعتبار سے ناقص ہونے کا سبب یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ حالت حیض میں نماز نہیں پڑھتیں اور روزہ نہیں رکھتیں اور پھر اس حالت میں ترک صوم وصلوٰۃ کی وجہ سے وہ قابل ملامت بھی نہیں بلکہ انہیں حکم ہی یہی ہے کہ اس حالت میں وہ نماز اور روزے کو ترک کر دیں، چنانچہ جب وہ اپنے اس شرعی عذر کی وجہ سے ان کاموں کو سر انجام دینے سے قاصر ہیں جنہیں سر انجام دینے میں مردوں کو کوئی عذر نہیں تو اس وجہ سے وہ مردوں کے مقابلہ میں ناقص قرار پائیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب