السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وہ بچہ جس کے ماں باپ کافر ہوں اور وہ بالغ اور شریعت کا مکلف ہونے سے پہلے فوت ہو جائے تو کیا وہ عنداللہ مسلمان ہے یا نہیں؟ یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
(كل مولود يولد علي الفطرة) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب ما قيل في اولاد المشركين‘ ح: 1385)
’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔‘‘
اور اگر وہ بچہ مسلمان ہے تو کیا مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ اسے غسل دیں اور اس کا جنازہ پڑھیں؟ راہنمائی فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اجر سے نوازے!
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب کافر ماں باپ کا نابالغ بچہ فوت ہو جائے تو دنیا کے احکام کے اعتبار سے وہ اپنے والدین کے تابع ہے کہ اسے غسل دیا جائے گا نہ جنازہ پڑھا جائے گا اور نہ مسلمانوں کی قبروں میں دفن کیا جائے گا اور آخرت میں اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب مشرکوں کے بچوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
(الله اعلم بما كانوا عاملين) (صحيح البخاري‘ القدر‘ باب الله اعلم بما كانوا عاملين‘ ح: 6597‘ 6598 وصحيح مسلم‘ القدر‘ باب معنيٰ كل مولود يولد علي الفطرة...الخ‘ ح: 2659‘2660)
’’اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے؟‘‘
بعض اہل علم کا قول ہے کہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا علم قیامت کے دن ظاہر ہو گا اور ان کا بھی اہل فترت کی طرح امتحان ہو گا اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری کی تو جنت میں داخل ہوں گے اور اگر نافرمانی کی تو جہنم رسید ہوں گے۔ صحیح احادیث سے ثابت ہیں کہ اہل فترت کا قیامت کے دن امتحان ہو گا۔ اہل فترت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس انبیاء کرام علیھم السلام کی دعوت نہیں پہنچی ہو گی۔ اسی طرح جو لوگ ان کے حکم میں ہوں گے مثلا مشرکوں کے بچے، (ان کا بھی امتحان ہو گا) کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا ﴿١٥﴾... سورة الاسراء
’’اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیجیں ہم عذاب نہیں دیا کرتے۔‘‘
اہل فترت کے بارے میں سب سے زیادہ صحیح قول یہی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، آپ کے شاگرد رشید علامہ ابن القیم اور سلف و خلف کی ایک جماعت رحمۃ اللہ علیھم نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب