سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(99) تعلیمی مقاصد کے لیے مردہ لاش کا پوسٹ مارٹم

  • 8638
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3634

سوال

(99) تعلیمی مقاصد کے لیے مردہ لاش کا پوسٹ مارٹم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے میڈیکل کالج قاہرہ کے پوسٹ مارٹم والے کمرہ میں مردوں، عورتوں اور بچوں کی کئی لاشیں دیکھی ہیں، تعلیمی مقاصد کے لیے جن کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا اور اعضاء کو کاٹا جاتا ہے۔ کیا اس ضرورت کے پیش نظر شرعا پوسٹ مارٹم جائز ہے؟ کیا مرد عورت کا اور عورت مرد کا پوسٹ مارٹم کر سکتی ہے؟ کیا انسانی اعضاء کو کاٹنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت اپنی زندگی میں جب معصوم ہو خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اور خواہ وہ مرد ہو یا عورت تو اس کا پوسٹ مارٹم کرنا جائز نہیں، کیونکہ اس میں میت سے بدسلوکی اور اس کی بے حرمتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(كسر عظم الميت ككسرة حيسا) (سنن ابي داود‘ الجنائز‘ باب في الحفار يجد العظم... الخ‘ ح: 3207)

’’مردہ کی ہڈی کو توڑنا ایسا ہے جیسا کہ زندہ کی ہڈی کو توڑنا۔‘‘

ہاں البتہ اگر میت غیر معصوم ہو مثلا مرتد اور حربی وغیرہ تو طبی مصلحت کے لیے اس کے پوسٹ مارٹم میں مجھے کوئی حرج معلوم نہیں ہونا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2  صفحہ 98 

محدث فتویٰ

تبصرے