سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(91) چہلم اور ماتمی جلسہ

  • 8630
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1293

سوال

(91) چہلم اور ماتمی جلسہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رسم چہلم منانے کی اصل کیا ہے؟ کیا ماتمی جلسہ کرنے کی کوئی شرعی دلیل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسم چہلم منانا فرعونیوں کی رسم ہے۔ اسلام سے قبل فرعون یہ رسم منایا کرتے تھے اور پھر ان سے دیگر قوموں میں یہ رسم پھیل کر عام ہو گئی، لہذا یہ ایک بہت بری بدعت ہے، اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں، چانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے اس کی تردید ثابت ہوتی ہے:

(من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد) (صحيح البخاري‘ الصلح‘ باب اذا اصطلحوا علي صلح جور...الخ‘ ح: 2697)

’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کر لی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

ثانیا: موجودہ طریقے کے مطابق جمع ہو کر ماتمی جلسہ کرنا اور فوت ہونے والے شخص کی تعریف میں بے حد مبالغہ سے کام لینا جائز نہیں ہے، کیونکہ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

(نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن المراثي) (سنن ابن ماجه‘ الجنائز‘ باب ما جاء في البكاء علي الميت‘ ح: 1592 ومسند احمد: 4/356)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرثیوں سے منع فرمایا ہے۔‘‘

چونکہ میت کے اوصاف بیان کرنے میں اکثر فخر و غرور کا اظہار کیا جاتا ہے اور غم و حزن کی تجدید ہوتی ہے اور اگر میت کے تذکرہ کے وقت یا اس کے جنازہ کے گزرنے کے وقت تعریف کی جائے یا اس کے تعارف کے لیے اس کے کارہائے نمایاں بیان کئے جائیں تو یہ جائز ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے بعض صحابہ نے شہداء احد یا دیگر صحابہ کرام کے انتقال کے وقت ان کی تعریف کی تھی۔ اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے جس کی صحابہ کرام نے تعریف کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’واجب ہو گئی‘‘ پھر لوگ ایک اور جنازہ لے کر گزرے تو صحابہ کرام نے اس کی برائی بیان کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھر بھی یہی فرمایا  کہ ’’واجب ہو گئی‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: کیا واجب ہو گئی؟ آپ نے فرمایا:

(هذا اثنيتم عليه خيرا فوجبت له الجنة‘ وهذا اثنيتم عليه شرا فوجبت له النار‘ انتم شهداء الله في الارض) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب ثناء الناس علي الميت‘ ح: 1367 وصحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب فيمن يثني عليه خير او شر من الموتي‘ ح: 949)

’’جس کی تم نے اچھائی بیان کی اس کے لیے جنت واجب ہو گئی اور جس کی تم نے برائی بیان کی اس کے لیے جہنم واجب ہو گئی، تم زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2  صفحہ 90

محدث فتویٰ

تبصرے