سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(88) وفات کے بعد کھانے کی دعوتیں

  • 8627
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1102

سوال

(88) وفات کے بعد کھانے کی دعوتیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ اپنے اعزہ و اقارب کی وفات کے بعد کھانے کی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں جانور ذبح کر کے گوشت وغیرہ خوب پکائے جاتے ہیں۔ ان دعوتوں کے اخراجات بھی متوفی کے مال ہی سے ادا کئے جاتے ہیں، تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اگر فوت ہونے والے نے اس قسم کی دعوتوں کی وصیت کی ہو تو کیا ازروئے شریعت اس طرح کی وصیت پر عمل کرنا لازم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وفات کے بعد دعوتوں کے اہتمام کی وصیت کرنا بدعت اور عمل جاہلیت ہے۔ اگر وصیت نہ کی گئی ہو تو اہل میت کا ازخد اس قسم کی دعوتوں کا انتظام کرنا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

(كنا نعد الاجتماع الي اهل الميت وصنيعة الطعام بعد دفنه من النياحة) (سنن ابن ماجة‘ الجنائز‘ باب ما جاء في النهي عن الاجتماع...الخ‘ ح: 1612 ومسند احمد: 204/2 واللفظ له)

’’ہم دفن کے بعد اہل میت کے ہاں جمع ہونے اور کھانا تیار کرنے کو نوحہ شمار کرتے تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے باسناد حسن بیان فرمایا ہے اور پھر یہ بات حکم شریعت کے خلاف بھی ہے، کیونکہ شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ اہل میت کے لیے کھانا تیار کر کے ان کی دلجوئی کی جائے اس لیے وہ مصیبت کی وجہ سے مشغول ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے غزوہ موتہ میں شہید ہونے کی خبر پہنچی تو آپ نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا:

(اصنعوا لال جعفر طعاما فانه قد اتاهم امر يشغلهم) (سنن ابي داود‘ الجنائز‘ باب صنعة الطعام لاهل الميت‘ ح: 3132)

’’جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ انہیں ایک ایسی مصیبت در پیش ہے جس نے انہیں (اور کاموں سے) مشغول کر دیا ہے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2  صفحہ 88

محدث فتویٰ

تبصرے