سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(19)قبولیتِ دعا کے لیے ضروری شرائط

  • 862
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 5719

سوال

(19)قبولیتِ دعا کے لیے ضروری شرائط

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

انسان کیونکر دعا کرے درانحالیکہ اس کی دعا تو قبول ہی نہیں ہوتی جب کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ٱدۡعُونِيٓ أَسۡتَجِبۡ لَكُمۡۚ﴾

’’تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا‘‘؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو درست عقیدہ اور صحیح قول و عمل کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَقالَ رَبُّكُمُ ادعونى أَستَجِب لَكُم إِنَّ الَّذينَ يَستَكبِرونَ عَن عِبادَتى سَيَدخُلونَ جَهَنَّمَ داخِرينَ ﴿٦٠﴾... سورۃ المؤمن

’’اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا، بلا شبہ جو لوگ میری عبادت سے سرکشی (تکبر) کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘

سائل کہتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول نہیں فرماتا تو اسے اپنے حال اور اس آیت کریمہ میں اشکال معلوم ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ جو اس سے دعا کرے گا وہ اس کی دعا کو قبول فرمائے گا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت چند ضروری شرائط کے ساتھ مشروط ہے جو کہ حسب ذیل ہیں:

۱۔            اللہ عزوجل کی ذات پاک کے لیے اخلاص: یعنی انسان دعا میں اخلاص کا ثبوت دے، اللہ تعالیٰ کی طرف حضوری قلب کے ساتھ متوجہ ہو، اس کی جناب میں صدق دل کے ساتھ انابت کرے اور اس بات کو خوب جان لے کہ اللہ تعالیٰ دعا قبول فرمانے پر قادر ہے اور پھر قبولیت کی امید کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اوردعاء کی قبولیت کی آس لگاکر رب کریم کے حضور دعاء کرے۔

۲۔           دعا کرتے وقت انسان یہ محسوس کرے کہ اسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے استعانت کی شدید ترین حاجت وضرورت ہے اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پاک ہے جو مجبور ومضطر کی دعا کو اس وقت شرف قبولیت سے نوازتا ہے جب وہ اس سے دعا کرے اور اللہ ہی ذات ہر تکلیف کو دورکرنیوالی ہے۔ اگر کوئی شخص اس طرح دعا کرے کہ وہ سمجھتا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بے نیاز ہے، اسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات اقدس سے استعانت کی کوئی ضرورت وحاجت نہیں بلکہ وہ صرف عادت اور روٹین کے طور پر دعا کر رہا ہے تو ایسا شخص بھلا کب اس قابل ہے کہ اس کی دعا کو قبول کیا جائے۔

۳۔           انسان حرام کھانے سے اجتناب کرے، حرام کھانا انسان اور اس کی دعا کی قبولیت کے حاجزبن کر حائل ہو جاتا ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«اِنَّ اللّٰهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ اِلاَّ طَيِّبًا وَاِنَّ اللّٰهَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ بِمَا اَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِيْنَ فَقَالَ تَعَالٰی: ﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَ اشْکُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ کُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ﴾ (البقرۃ: ۱۷۲) ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ يُطِيْلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ اَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ اِلَی السَّمَاءِ: يَا رَبِّ! يَا رَبِّ! وَمَطْمَعُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِیَ بِالْحَرَامِ قَالَ النَّبِیُّ: فَاَنَّی يُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ؟»(صحیح مسلم، الزکاة، باب قبول الصدقة من الکسب الطیب وتربیتھا، ح:۱۰۱۵)

’’بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک چیز ہی کو قبول فرماتا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے، جو اس نے رسولوں کو حکم دیا تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، بے شک میں تمہارے عملوں سے، جو تم کرتے ہو، خوب باخبر ہوں۔‘‘ اور فرمایا: ’’اے اہل ایمان! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں ان کو کھاؤ۔‘‘ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جس نے لمبا سفر کیا ہے، پراگندہ حال وپراگندہ بال اور غبار آلودگی کے عالم میں آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر کہتا ہے: اے رب! اے رب! اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام کا ہے اور اس کا پینا حرام کا ہے اور اس کا لباس حرام کا ہے اور حرام ہی کے ساتھ اس نے پرورش پائی ہے گویاکہ اس کی بود وباش حرام خوری میں ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو؟‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کی دعا کی قبولیت کو بعید ازقیاس قرار دیا ہے اگرچہ اس نے ان ظاہری اسباب کو اختیارکررکھاتھا جن سے دعا قبولیت حاصل کرتی ہے اور وہ یہ ہیں:

۱۔            آسمان کی طرف یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف دونوں ہاتھوں کا اٹھانا کیونکہ اللہ تعالیٰ آسمان پر اپنے عرش کے اوپر ہے اور اللہ کی طرف ہاتھ پھیلانا قبولیت کے اسباب میں سے ہے، جیسا کہ اس حدیث میں ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ  نے ’’مسند‘‘ میں روایت کیا ہے:

«اِنَّ اللّٰهَ حَیٌّ کَرِيْمٌ يَسْتَحْيِیْ  من عبده اذارفع اليه يديه أن يردهما صفرا»(مسند احمد: ۵/ ۴۳۸ وجامع الترمذی، الدعوات، باب ان الله حی کریم، ح: ۳۵۵۶، وسنن ابن ماجه، الدعاء، باب رفع الیدین فی الدعاء، ح: ۳۸۶۵)

’’بے شک اللہ تعالیٰ صاحب حیا اور کرم فرمانے والا ہے، وہ اس بات سے عار محسوس کرتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ہاتھوں کو اس کی طرف اٹھائے تو وہ انہیں خالی او ر نامراد واپس لوٹا دے۔‘‘

۲۔           اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے اسم پاک ’’رب‘‘ کے ساتھ یا رب! یا رب! کہہ کر دعا کی تھی اور اس اسم پاک کے وسیلے کے ساتھ دعا کرنا بھی اسباب قبولیت میں سے ایک سبب ہے، کیونکہ رب کے معنی خالق، مالک پروردگار اور تمام امور کی تدبیر کرنے والے کے ہیں، اس کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں وارد اکثر دعائیں اللہ تعالیٰ کے اسی اسم پاک سے شروع ہوتی ہیں:

﴿رَبَّنا إِنَّنا سَمِعنا مُنادِيًا يُنادى لِلإيمـنِ أَن ءامِنوا بِرَبِّكُم فَـٔامَنّا رَبَّنا فَاغفِر لَنا ذُنوبَنا وَكَفِّر عَنّا سَيِّـٔاتِنا وَتَوَفَّنا مَعَ الأَبرارِ ﴿١٩٣ رَبَّنا وَءاتِنا ما وَعَدتَنا عَلى رُسُلِكَ وَلا تُخزِنا يَومَ القِيـمَةِ إِنَّكَ لا تُخلِفُ الميعادَ ﴿١٩٤فَاستَجابَ لَهُم رَبُّهُم أَنّى لا أُضيعُ عَمَلَ عـمِلٍ مِنكُم مِن ذَكَرٍ أَو أُنثى بَعضُكُم مِن بَعضٍ...﴿١٩٥﴾... سورة آل عمران

’’اے ہمارے پروردگار! ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا جو ایمان کے لیے پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ، تو ہم ایمان لے آئے، اے ہمارے پروردگار! ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیوں کو ہم سے محو کردے اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا۔ اے ہمارے پروردگار! تو نے جن جن چیزوں کے ہم سے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے وعدے کیے ہیں وہ ہمیں عطا فرما اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کرنا، اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں کہ تو خلاف وعدہ نہیں کرتا، تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو، خواہ مرد ہو یا عورت، ضائع نہیں کرتا۔ تم آپس میں ایک دوسرے کی جنس ہو۔‘‘

 تو پتہ یہ چلا کہ اس اسم پاک کے ساتھ وسیلہ اختیار کرنے کا بھی اسباب قبولیت میں شمار ہے۔

۳۔           یہ شخص مسافر تھا اور سفر کو بھی اکثر وبیشتر حالتوں میں اسباب قبولیت میں ہی شمارکیا جاتا ہے کیونکہ سفر میں انسان اپنے اہل خانہ میں مقیم ہونے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ ضرورت وحاجت محسوس کرتا ہے اور پھر وہ پریشان بال اور غبار آلود بھی ہو، گویا اپنی ذات کی طرف اس کی توجہ نہیں کیونکہ اس موقعہ سے اس کے نزدیک زیادہ اہم بات یہ  ہواکرتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے فریاد کرے چاہے وہ جس حال میں بھی ہو، اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کرے، خواہ اس کے بال پریشان اور اس کا لباس غبار آلود ہو یا وہ آسودہ حال ہو۔ پریشان حالی وغبار آلودگی کا بھی دعا کی قبولیت میں عمل دخل ہے، جیسا کہ نبی کی اس حدیث میں ہے:

« اَتَونِی شُعْثًا غُبْرًا ضاحين من کل فج عميق»(صحیح مسلم،کتاب الحج،باب فضل الحج والعمرة ویوم عرفة۴۳۶)

میرے بندے میری جناب حاضری دینے کی غرض سے پراگندہ حال اور پراگندہ بال قربانی کا جانور ساتھ لئے ہوئے دوردرزعلاقوں سے چل کر آئے ہیں۔

قبولیت دعا کے یہ سارے اسباب شخص مذکور کے کچھ کام نہ آئے کیونکہ اس کا کھانا حرام کا، لباس حرام کا اور حرام ہی کے ساتھ اس کی پرورش ہوئی تھی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اس شخص کی دعا کیسے قبول ہو؟‘‘ اجابت دعا کی یہ شرائط جب بندے کے پاس پوری نہ ہوں تو قبولیت اس سے کوسوں دور ہو جاتی ہے۔ اگر شرائط پوری ہوں اور اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے کی دعا کو قبول نہ فرمائے تو اس میں کوئی ایسی حکمت پنہاںہوتی ہے، جسے اللہ ہی جانتا ہے مگر دعا کرنے والا نہیں جان سکتا۔ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کر لو اور وہ تمہارے لیے بری ہو، جب قبولیت دعا کی ساری شرطیں موجود ہوں، مگر اللہ تعالیٰ دعا قبول نہ فرمائے تو وہ یا تو اس لیے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ کسی بڑی برائی کو اس سے دور فرمانا چاہتا ہے یا اس دعا کو اس کی خاطر قیامت کے دن کے لیے ذخیرہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی وجہ سے وہ اسے زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب عطا فرما دے کیونکہ دعا کرنے والے نے جب دعا کی ساری شرطیں بھی پوری کر دیں، مگراللہ تعالیٰ نے اسے قبول نہ فرمایا اور کسی بڑی برائی کو بھی اس سے دور نہ فرمایا تو ممکن ہے کہ یہ عدم قبولیت کسی حکمت کی وجہ سے ہو، وہ حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دوگنا اجر وثواب عطا فرمانا چاہتا ہو، ایک دعا کرنے کا اجر و ثواب اور دوسرا عدم قبولیت کی مصیبت کا اجر و ثواب بلاشبہ اس کے بدلہ اللہ تعالیٰ روز قیامت اسے عظیم الشان اور اکمل وأتم ترین اجر و ثواب سے سرفراز فرما ئے گا۔

پھر ایک اہم بات یہ ہے کہ انسان یہ نہ سمجھے کہ اس کی دعا قبول ہی نہیں ہوتی کیونکہ یہ بات بھی دعاکی عدم قبولیت کے اسباب میں سے ایک سبب ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«يُسْتَجَابُ لَاحَدِکُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ، قالوا کيف يعجل يارسول الله؟ قال: يَقُولُ: دَعَوْت ودعوت ودعوتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِیْ»(صحیح البخاری، الدعوات، باب یستجاب للعبد ما لم یعجل، ح: ۶۳۴۰ وصحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب بیان انه یستجاب للداعی مالم یعجل… ح: ۲۷۳۵)

’’تم میں سے اس شخص کی دعا قبول کی جاتی ہے بشرطیکہ وہ جلدی بازی سے کام نہ لے (صحابہ کرام نے عرض کیا دعاء میں جلد بازی کا کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ فرمایا کہ بندہ یہ کہتے پھرے کہ میں نے دعاکی میں نے دعاء کی میں نے دعاء کی مگر میری دعا تو قبول ہی نہ ہوئی۔‘‘

لہٰذا انسان کو یہ بات زیب نہیں دیتی وہ قبولیت میں تاخیر سمجھتے ہوئے دعا سے مایوس ہو جائے اورحسرت وندامت کا اظہار کرنے لگے پھرمایوس ہوکر دعاء ترک کر دے، بلکہ اسے چاہیے کہ اصرار و گریہ وزاری کے ساتھ دعا کرتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کی جانے والی ہر دعا عبادت اور تقرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ دعا سے اجر وثواب میں بھی اضافہ ہو تا رہتا ہے، لہٰذا اے بھائی! اپنے تمام عام ، خاص، مشکل اور آسان امور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہا کرو۔ اگر دعا کا عبادت ہونے کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہ بھی ہوتا تو بھی آدمی کو چاہیے کہ وہ ہر وقت دعا کرتا رہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ57

محدث فتویٰ

تبصرے