سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(80) میت کی قبر کے پاس اذان و اقامت

  • 8619
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1111

سوال

(80) میت کی قبر کے پاس اذان و اقامت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میت کو قبر میں رکھتے وقت اذان و اقامت کہنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلا شک و شبہ یہ بدعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی کوئی سند نازل نہیں فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بھی ایسا ہرگز ثابت نہیں ہے جب کہ ساری خیرو برکت انہی کے نقش قدم پر چلنے میں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَالسّـبِقونَ الأَوَّلونَ مِنَ المُهـجِر‌ينَ وَالأَنصارِ‌ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـنٍ رَ‌ضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَ‌ضوا عَنهُ...١٠٠﴾... سورة التوبة

’’وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی اور وہ جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سے خوش اور وہ اللہ سے خوش ہیں۔‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد) (صحيح البخاري‘ الصلح‘ باب اذا اصطلحوا علي صلح جور...الخ‘ ح: 2697)

’’جو شخص ہمارے اس دین (اسلام) میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرے جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

ایک اور روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(من عمل عملا ليس عليه امرنا فهو رد) (صحيح مسلم‘ الاقضية‘ باب نقض الاحكام الباطلة ...الخ‘ ح: 1718)

’’جو کوئی ایسا عمل کرے جس کے بارے میں ہمارا امر نہ ہو تو وہ (عمل) مردود ہے۔‘‘

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کرتے تھے:

(اما بعد! فان خير الحديث كتاب الله‘  خيرالهدي هدي محمد صلي الله عليه وسلم‘ وشر الامور محدثاتها‘ (وكل محدثه بدعة) (صحيح مسلم‘ الجمعة‘ باب تخفيف الصلاة والخطبة‘ ح: 867‘ وما بين القوسين لفظ النسائي‘ العيدين‘ كيف الخطبة‘ ح: 1879)

’’اما بعد! سب سے بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سب سے بدترین امور وہ ہیں جنہیں (دین میں) نیا ایجاد کر لیا گیا ہو، ایسی ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2  صفحہ 81

محدث فتویٰ

تبصرے