سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(10) مسجدوں میں بچوں کی حاضری

  • 8549
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1292

سوال

(10) مسجدوں میں بچوں کی حاضری

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض نمازی جب مسجد میں آتے ہیں تو ان کے ساتھ اتنے چھوٹے بچے بھی ہوتے ہیں جو ابھی تک شعور کی عمر کو نہیں پہنچے ہوتے اور وہ نماز بھی اچھے طریقے سے نہیں پڑھ سکتے لیکن نمازیوں کے ساتھ صف میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان میں سے بعض دوران نماز ہی کھیلنے لگتے اور اپنے ساتھ کھڑے نمازیوں کو پریشان کرنا شروع کر دیتے ہیں تو اس سلسلے میں کیا حکم ہے؟ بچوں کے وارثوں کے لیے آپ کے کیا ارشادات ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میری رائے میں ایسے بچوں کو مسجد میں لانا جائز نہیں جو نمازیوں کے لیے باعث تشویش ہوں کیونکہ اس میں فریضہ الہی ادا کرنے والے نمازیوں کے لیے ایذاء ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بعض صحابہ کو نماز پڑھتے اور جہری قراءت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا:

( لا يجهر بعضكم علي بعض بالقراءة) (مسند احمد:36/2‘67)

’’جب کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہوں تو باقی جہری قراءت نہ کریں۔‘‘

ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں:

( لا يوذين بعضكم بعضا) (سنن ابي داود‘ الصلاة‘ باب رفع الصوت بالقراءة...الخ‘ ح:1332)

’’بعض نمازی بعض دوسروں کو ایذاء نہ پہنچائیں۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ وہ کام جائز نہیں ہے جس سے نمازیوں کو تکلیف پہنچتی ہو۔

میری ان بچوں کے وارثوں کو نصیحت ہے کہ وہ انہیں مسجد میں نہ لائیں اور اسی رشد و بھلائی کو اختیار کریں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں تعلیم فرمائی ہے:

(مرو ابناءكم بالصلاة لسبع سنين واضربوهم عليها لعشر سنين) (سنن ابي داود‘ الصلاة‘ باب متي يومر الغلام بالصلاة‘ ح:494‘495 ومسند احمد: 187/2‘ واللفظ له)

’’اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور اگر دس سال کے ہو کر بھی نماز نہ پڑھیں تو انہیں مارو۔‘‘

میں اہل مسجد کے لیے بھی یہ وصیت کرتا ہوں کہ ان بچوں کے لیے ان کے سینے کشادہ ہونے چاہئیں جن کا مسجد میں آنا درست ہے، انہیں وہ مشقت میں نہ ڈالیں اور نہ اس جگہ سے انہیں ہٹائیں جہاں وہ سبقت کر کے آ بیٹھے ہوں کیونکہ جو شخص جس جگہ سبقت کر کے آ بیٹھے وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔ خواہ وہ بچہ ہو یا بڑا۔ بچوں کو صف میں سے ان کی جگہ سے اٹھا دینے میں (اولا) ان کی حق تلفی ہے کیونکہ جو شخص سبقت کر کے کسی ایسی جگہ بیٹھ جائے جہاں کوئی اور مسلمان سبقت کر کے نہ پہنچا ہو تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔ (ثانیا) اس سے ان کے دلوں میں مسجد سے نفرت پیدا ہو گی۔ (ثالثا) بچے کے دل میں اس شخص کے بارے میں کینہ اور کراہت پیدا ہو گی جو اسے اس جگہ سے اٹھائے گا جہاں وہ پہلے سے آ کر بیٹھا ہے۔ (رابعا) بچوں کو ان کی جگہ سے اٹھا دینے کی صورت میں وہ سب اکھٹے ہو جائیں گے اور وہ کھیلنے لگیں گے جس سے اہل مسجد کو پریشانی لاحق ہو گی اور اگر بچے الگ الگ ہو کر مردوں کے درمیان میں کھڑے ہوں گے تو پھر اس طرح کی کوئی پریشانی لاحق نہ ہو گی۔

بعض اہل علم نے جو ذکر کیا ہے کہ بچوں کو ان کی جگہ سے اٹھا دیا جائے حتیٰ کہ وہ صف کے آخر میں یا آخری صف میں کھڑے ہوں اور انہوں نے اس سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے:

(ليلني منكم اولو الاحلام والنهي) (صحيح مسلم‘ الصلاة‘  باب تسوية الصفوف واقامتها و فضل الاول منها...الخ‘ ح:432)

’’تم میں سے بالغ اور صاحب فہم و دانش میرے قریب کھڑے ہوں۔‘‘

تو یہ قول مرجوح ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے معارض بھی ہے:

(من سبق الي ما لم يسبقه اليه مسلم فهو له) (سنن ابي داود‘ الخراج‘ باب في اقطاع الارضين‘ ح:3071)

’’جو شخص کسی ایسی چیز کی طرف سبقت کر گیا ہو جہاں کوئی اور مسلمان سبقت نہ کر سکا ہو تو وہ چیز اسی (سبقت کرنے والے) کی ہے۔‘‘

ان حضرات کا استدلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ہے:

(ليلني منكم اولو الاحلام والنهي) (صحيح مسلم‘ الصلاة‘  باب تسوية الصفوف واقامتها و فضل الاول منها...الخ‘ ح:123‘432)

’’تم میں سے بالغ اور صاحب فہم و دانش میرے قریب کھڑے ہوں۔‘‘

درست نہیں ہے کیونکہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اس میں اصحاب فہم و دانش کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ آگے بڑھیں، سبقت کریں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عمل دیکھا یا قول سنا اس کو زیادہ یاد رکھنے والے ہوں گے۔ آپ نے یہ تو نہیں فرمایا کہ صرف صاحب فہم و دانش ہی میرے قریب کھرے ہوں۔ ہاں اگر آپ نے ایسا فرمایا ہوتا تو پھر بچوں کو ان کی جگہ سے اٹھا دینے کی بات درست ہوتی لیکن حدیث کے الفاظ جو ہیں ان میں اصحاب فہم و دانش کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور سبقت کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھڑے ہوں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

مساجد کے احکام:  ج 2  صفحہ26

محدث فتویٰ

تبصرے